Voice of KP

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ اور پاکستان کی سیکیورٹی

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ اور پاکستان کی سیکیورٹی
عقیل یوسفزئی
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ کمیٹی نے 25 جولائی 2023 کو ایک رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان کو علاقائی امن اور سیکیورٹی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ ٹی ٹی پی جہاں پاکستان پر مسلسل حملوں میں تیزی لاچکی وہاں اس نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اپنا اثررسوخ بڑھادیاہے اور یہ کہ یہ القاعدہ کے ساتھ الحاق بھی کرسکتی ہے. رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان بوجوہ دوسرے عسکریت پسند گروپوں کو متحد کرنے کا ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کرسکتی ہے جس سے علاقائی امن کو درپیش چیلنجز اور خطرات میں اضافہ ہوگا.
رپورٹ کے مطابق القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان نہ صرف یہ کہ الحاق ممکن ہے بلکہ پاکستان کے اندر بڑھتے حملوں کے پس منظر میں القاعدہ اس پاکستانی عسکریت پسند گروپ کو رہنمائی اور معاونت بھی فراہم کرتی رہی ہے. یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقے صوبہ کنڑ میں عسکریت پسند گروپوں کے کیمپوں کو استعمال کررہی ہے اور افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس کی طاقت، پھیلاو اور حملوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ماضی کی طرح اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہےاور اگر اس مہم میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں بھی اس کا ساتھ دینے لگی تو اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے سیکورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوگا بلکہ علاقائی امن بھی خطرے سے دوچار ہوجائے گی.
اس رپورٹ کو پاکستان کی مین سٹریم میڈیا نے حسب معمول ذیادہ اہمیت نہیں دی تاہم ممتاز اور سنجیدہ تجزیہ کاروں کے علاوہ امریکی میڈیا نے اس کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ اور چیلنج قرار دیا. ماہرین کے مطابق پاکستان کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے معاملے پر وہ تعاون نہیں کیا جس کی توقع کی جارہی تھی. عالمی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق افغانستان کی حکومت نے دوحہ معاہدے سے قبل پاکستانی متعلقہ حکام کے ساتھ جو وعدے کئے تھے حکومت میں آنے کے بعد نہ صرف یہ کہ ان وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ افغانستان کے وزرا آن دی ریکارڈ یہ کہتے پائے گئے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور مسئلہ ہے.
22 جولائی کو پاکستان کا ایک ریاستی وفد نمایندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی کی قیادت میں کابل کے 3 روزہ دورے پر گیا جہاں اس وفد نے اعلیٰ افغان حکام اور وزراء سے ملاقاتیں کیں مگر جیسے ہی یہ وفد واپس لوٹ آیا دو اہم افغان عہدیداروں ذبیح اللہ مجاہد اور مولوی یعقوب نے اپنے انٹرویوز میں وہی لائن بیان کی کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کہ پاکستان اس کے ساتھ مذاکرات کریں.
اس کے جواب میں ٹی ٹی پی کے ترجمان نے بیان دیا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے. دوسری جانب 27 جولائی کو پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک بریفنگ میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل کا کوئی آپشن زیر غور ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی مذاکرات ہوں گے.
اس سے قبل جولائی ہی کے مہینے میں پشاور میں پالیسی میکرز نے ماہرین، قبائلی مشران، سابق حکومتی حکام، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کرتے ہوئے اس تمام صورتحال پر ان کی آراء اور تجاویز طلب کیں تو شرکاء کی اکثریت نے جہاں ریاستی اداروں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا وہاں ان کی اکثریتی رائے یہ تھی کہ جاری حملوں کے تناظر ٹی ٹی پی کی بجائے افغان حکومت سے رابطہ کاری کی جائے اور ان کے ساتھ اس ایشو پر تعلقات خراب کرنے سے گریز کی پالیسی اپنائی جائے.
اس دوران سی ٹی ڈی خیبر پختون خوا نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ سال 2022 کے دوران صرف خیبر پختون خوا کو 665 حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں 16 خودکش اور 15 راکٹ حملے بھی شامل ہیں.
ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ سی ٹی ڈی نے مختلف کارروائیوں کے دوران 139 حملہ آوروں کو موت کی گھاٹ اتارا جبکہ 432 کو گرفتار کیا گیا.
ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 کے ابتدائی 3 مہینوں کے دوران 262 حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں 115 افراد شہید اور اتنے ہی زخمی ہوگئے جن میں 94 فی صد فورسز خصوصاً کے پی پولیس کے افسران اور جوان تھے.
جولائی کے آخر میں ایسے ہی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک سال کے عرصے میں شمالی وزیرستان کو 140، ڈی آئی خان کو 81 جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور کو 56 حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
ان تمام واقعات اور حملوں کی تعداد سے ثابت ہوا کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان 2022.23 کے دوران مسلسل حملوں کی زد میں رہا اور اس سے نمٹنے کیلئے فورسز کی مسلسل کارروائیاں بھی جاری رہیں. شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کسی بھی علاقے میں ماضی کی طرح اپنا کوئی ہولڈ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی. اس کے باوجود پاکستان میں بعض سیاسی عناصر نہ صرف ریاستی اداروں کو اس پیچیدہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے رہے بلکہ بعض بلاواسطہ طور پر طالبان کے بیانیہ اور کارروائیوں کا دفاع کرتے دکھائی دیے.
فوج کی مخالفت میں ان واقعات کو اپنے نظریات اور موقف کے تناظر میں ریاست کے خلاف استعمال کرنے کی مہم جاری رکھی گئی جس نے عام لوگوں میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی.
اقوام متحدہ کی 25 جولائی کی رپورٹ نے جہاں معاملے کی سنگینی کی نشاندہی کی وہاں ریاستی تشویش کو درست بھی قرار دیا. شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ امریکا کے سیکرٹری خارجہ بلنکن نے رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جبکہ امریکی سینٹکام کے سربراہ نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے رابطے کئے اور جاری معاملات پر مشاورت کی گئی.

Exit mobile version