Voice of KP

ایک پیچیدہ، صبر آزما ریسکیو آپریشن اور قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ

ایک پیچیدہ، صبر آزما ریسکیو آپریشن اور قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ
عقیل یوسفزئی
منگل کی صبح تقریباً 8 بجے پورا ملک اس وقت سکتے کے عالم سے دوچار ہوا جب یہ خبر سامنے آئی کہ خیبر پختون خوا کے دور افتادہ علاقے بٹگرام کے تحصیل آلائ میں 6 بچوں سمیت 8 افراد ایک چیر لفٹ (ڈولی) کی ایک رسی ٹوٹنے کے باعث دو پہاڑوں کے درمیان پھنس گئی ہے. وزیراعظم نے ذاتی طور پر فوری طور پر ریسکیو آپریشن کے احکامات جاری کئے تاہم ناقابل رسائی اور پیچیدہ علاقہ ہونے کے باعث جائے وقوعہ پر پہنچنے میں متعلقہ اداروں کو کافی وقت لگ گیا. اس دوران معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے آرمی چیف نے بھی عسکری اداروں کو تمام درکار اقدامات اٹھانے اور وسائل بروئے کار لانے کی ہدایات دیں جس کے نتیجے میں تین چار ہیلی کاپٹروں سمیت ایس ایس جی کو بھی علاقے میں پہنچا دیا گیا اور اس آپریشن کی نگرانی جی او سی نے خود کی.
آپریشن کے دوران تمام خدشات اور امکانات کا بغور جائزہ لیا گیا کیونکہ بعض بنیادی تکنیکی اور موسمی مسائل آڑے آرہے تھے اور اداروں کی کوشش رہی کہ اس آپریشن کو کسی جانی نقصان یا رسک کے بغیر سرانجام دیا جائے.
تقریباً 13 گھنٹے کی اس مشکل پراسیس کے دوران جہاں متعلقہ ادارے خصوصاً پاک فوج مشکل صورتحال سے دوچار رہے اور مختلف آپشنز پر پلاننگ ہوتی رہی وہاں پاکستان کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام متاثرین اور حکومتی اداروں کی خیریت اور کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہے. اگر یہ کہا جائے کہ عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ کسی واقعے نے پوری قوم کو متحد کردیا تھا تو غلط نہیں ہوگا.
اگر چہ آپریشن کی کامیابی کے بعد بعض ریاست بیزار سیاسی حلقوں نے سول ملٹری کریڈٹ کی آڑ میں حسبِ معمول پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے پروپیگنڈا مہم چلانے کی کوشش کی تاہم ان کی تعداد بہت کم رہی اور عوام کی اکثریت نے اپنے اداروں کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کی.
بعض لوگوں نے لا علمی میں یا جان بوجھ کر اس آپریشن کی تکنیکی مشکلات اور مجوزہ خطرات کو سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی تاہم مجموعی طور پر عوام کا اعتماد بحال رہا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آئی ایس پی آر نے جو اعلامیہ جاری کیا اس میں تمام متعلقہ سول اداروں اور انتظامیہ کے علاوہ مقامی لوگوں کے کردار کو بطور خاص سراہا گیا.
اس موقع پر بعض سنجیدہ سیاسی اور صحافتی حلقوں نے بجا طور پر نگران صوبائی حکومت کی لاتعلقی پر مبنی رویہ کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ جس وقت پوری قوم دعائیں مانگ رہی تھی، سکتے کے عالم میں تھی اور درست معلومات کی تلاش میں تھی اس وقت پشاور کے “حکمران” ایک روٹین کی تقریب کے انعقاد میں مصروف عمل تھے.
حالت یہ تھی کہ کوئی بھی صوبائی عہدے دار تفصیلات بتانے کے لیے بھی میڈیا کو دستیاب نہیں تھا. دوسری جانب جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے بٹگرام کے بعض اہم عہدیداروں نے نہ صرف میڈیا کو منفی اور مایوس کن اطلاعات پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ گورنر موصوف بھی پورے منظر نامہ سے غائب رہے حالانکہ ایسے مواقع پر اداروں اور متاثرین کو اخلاقی سپورٹ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے.
شکر ہے کہ کسی نقصان کے بغیر یہ آزمائش گزر گئی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آیندہ کے لیے ایسے کسی اور واقعہ سے بچنے کے لیے ان لوکل چیئر لفٹس (ڈولی) کی نہ صرف سخت مانیٹرنگ کی جائے بلکہ ان کو محفوظ بنانے کیلئے سہولیات بھی فراہم کی جائیں کیونکہ مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے علاوہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں لاکھوں لوگ اس سسٹم کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر آمدورفت کرتے ہیں اور ان کی آمدورفت کو محفوظ بنانا حکومت کے بنیادی فرائض میں آتا ہے۔

Exit mobile version