Voice of KP

صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس میں اہم فیصلے

صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس میں اہم فیصلے
عقیل یوسفزئی
گزشتہ روز خیبر پختون خوا کے نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کی زیر صدارت صوبے کے مختلف معاملات دیکھنے کے لیے قائم فورم صوبائی ٹاسک فورس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ضم اضلاع کے مسائل کا بطور خاص ناقدانہ اور تفصیلی جائزہ لیا گیا. اجلاس میں پشاور کے کور کمانڈر سمیت متعدد متعلقہ وزراء، سیکٹریز اور صوبائی اداروں کے سربراہان شریک ہوئے.
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر دو مہینے بعد اسی کے تسلسل میں ٹاسک فورس کا جائزہ اجلاس منعقد کیا جائے گا تاکہ ضم اضلاع سمیت صوبے کو درپیش مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال ہو اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات کئے جائیں.
اجلاس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس کے ذمے صوبے کے واجب الادا بقایا جات کی ادائیگی کو یقینی بنائیں تاکہ صوبے کو نہ صرف یہ کہ درپیش اقتصادی بحران سے نکال دیا جائے بلکہ ضم قبائلی اضلاع کی بحالی، تعمیر نو اور ترقی کے علاوہ ان کے انتظامی مسائل کو بھی حل کیا جاسکے.
اس اجلاس میں سیکیورٹی کی صورتحال کا مختلف اداروں کے سربراہان کی رپورٹس کی روشنی میں جایزہ لیا گیا اور متعدد اقدامات کی منظوری دے دی گئی. فیصلہ کیا گیا کہ پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کو توسیع دی جائے گی، فرانزک لیبارٹری قائم کی جائے گی اور ایک سیکیورٹی جیل بنانے سمیت ضم اضلاع میں پولیس سمیت دیگر سول اداروں کو فعال اور مضبوط بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں گے.
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مالاکنڈ لیویز کو تربیت دیکر پولیس فورس میں تبدیل کیا جائے گا. ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ قبائلی علاقوں کے تنازعات کے مستقل حل پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور اس مقصد کیلئے بعض درکار انتظامی اقدامات کے علاوہ سیاسی اور سماجی مشران کی مشاورت اور تجاویز کی روشنی میں ایک مربوط حکمت عملی وضع کی جائے گی.
دیر آید درست آید کے مصداق اس اجلاس کا انعقاد پہلے کرنا چاہیے تھا تاہم اگر ان فیصلوں پر اب بھی عملدرآمد کیلئے عملی کوششیں کی گئیں تو اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ اجلاس میں نہ صرف یہ کہ بہت سے “امراض” کی صحیح تشخیص کی گئی ہے بلکہ درکار اقدامات کی گائیڈ لائن اور ڈائریکشن کا تعین بھی کیا گیا ہے.
قبائلی امور کے صوبائی وزیر ڈاکٹر عامر عبداللہ نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں ایک اچھی خبر یہ سنائی ہے کہ وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے لیے 19 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے. اگر چہ درپیش مسائل کے تناظر میں یہ رقم بہت کم ہے تاہم اس سے یہ ضرور ہوگا کہ فاینانشل ڈیڈ لاک کی جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس سے نکلنے میں مدد ملے گی.
صوبہ پختون خوا میں بدھ کے روز سے یہاں مقیم ان لاکھوں افغان مہاجرین کی انخلاء کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے جو کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تھے یا ہیں. متعلقہ اداروں نے اس مشکل ٹاسک کو مناسب طریقے سے سرانجام دینے کی جو پلاننگ کی وہ قابل تعریف ہے تاہم اس تمام مشکل ٹاسک کے دوران کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جن افغان باشندوں کو پاکستان نے لمبے عرصے تک پناہ دی ان کو محفوظ اور باعزت طریقے سے واپس بھیج دیا جائے تاکہ وہ اچھی یادیں لیکر اپنے وطن واپس چلے جائیں.
وفاقی حکومت کا یہ اعلان اور عزم خوش آیند ہے کہ یہ لوگ جب بھی درکار قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان آئیں گے ان کا بھائیوں کی طرح خیرمقدم کیا جائے گا. اس تمام صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے اور ہر اس کوشش سے اجتناب کا رویہ اختیار کیا جائے جس سے پاکستان اور افغانستان کی ریاستوں کے علاوہ عوام کے درمیان بدگمانی اور بددلی میں اضافہ ہو.

Exit mobile version