Voice of KP

مولانا فضل الرحمان کی ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ پر تنقید کیوں؟

مولانا فضل الرحمان کی ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ پر تنقید کیوں؟
عقیل یوسفزئی
پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں تاہم اس صورتحال کا راستہ روکنے کے لیے لازمی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک مشترکہ کمیشن قائم ہو اور امارات اسلامیہ سمیت بعض دیگر فریقین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں. اگر حملوں کی یہ لہر جاری رہی تو پختون خوا میں الیکشن کا انعقاد خطرے سے دوچار ہوجائے گا.
نامور صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کو ایک انٹرویو میں مولانا نے کہا کہ خطے میں امریکی انخلاء کے بعد جنگ تو ختم ہوگئی ہے مگر جنگجو ختم نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے لیے نیا محاذ کھول دیا ہے. اسلام کا دفاع کرنا علماء کرام کا کام ہے بندوق بردار جنگجوؤں کا نہیں تاہم گزشتہ دو ڈھائی برسوں کے دوران بدامنی اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس کا پاکستان کے اداروں، قایدین اور علماء کے علاوہ امارات اسلامیہ (افغان عبوری حکومت) کو بھی نوٹس لینا چاہئے.
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ٹانک سے لیکر باجوڑ اور چترال تک پختون خوا کے بہت سے علاقوں میں نہ صرف حملے جاری ہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ بھی روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہے. گزشتہ کچھ عرصے میں جہاں ہماری پارٹی پر باجوڑ میں حملہ کیا گیا جس میں 73 کارکن اور لوگ شہید ہوئے وہاں اس عرصے میں ہمارے 19 رہنماؤں اور کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا. یہ صورت حال اس قدر خطرناک ہے کہ سیاسی قوتوں کو صوبے میں اگلے الیکشن کے انعقاد پر بھی تشویش لاحق ہوگئ ہے. ہم کھل کر الیکشن کی مخالفت اس لیے نہیں کررہے کہ بعض لوگ اس سے یہ تاثر لیں گے کہ ہم اس بہانے الیکشن سے بھاگ رہے ہیں”
ایک اور سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس صورت حال سے دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان الیکشن کے انعقاد کے علاوہ تجارت، سرمایہ کاری، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اور سیکورٹی کے معاملات سلجھانے اور نمٹانے کا بھی قابل نہیں ہے اس لیے لازمی ہے کہ دونوں ممالک ایک مشترکہ کمیشن قائم کرکے اس صورتحال کا کوئی مستقل حل نکال لیں اور تنازعات کے حل کیلئے بھی کوئی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔

Exit mobile version