Voice of KP

پاکستان میں افغان مہاجرین کاطویل قیام اور اقوام متحدہ کی رپورٹ

Return of more than 16000 Afghan citizens

پاکستان میں افغان مہاجرین کا طویل قیام اور اقوام متحدہ کی رپورٹ
عقیل یوسفزئی
اقوام متحدہ نے جون 2023 کی جاری کردہ اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں 3.7 ملین (37 لاکھ) افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں اور یہ کہ ان کے قیام کو تقریباً 40 سال مکمل ہونے کو ہے. رپورٹ کے مطابق 3.7 ملین مہاجرین میں رجسٹرڈ افراد یا خاندانوں کی تعداد صرف 1.33 ہے باقی غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہیں.
کہا گیا کہ 68. 8 فی صد افغان شہری پاکستان کے شہری یا نیم شہری علاقوں میں جبکہ 31.2 فیصد ملک کے دیگر علاقوں یعنی دیہی علاقوں میں قیام پذیر ہیں.
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افغان مہاجرین خیبر پختون خوا میں قیام پذیر ہیں جو کہ 24 فی صد ہیں. بلوچستان 14.3 فی صد کے تناسب سے ان کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا مرکز ہے. پنجاب میں 5.5 فی صد جبکہ سندھ میں 3.1 اور اسلام آباد، کشمیر میں تقریباً ایک ایک فیصد مہاجرین آباد ہیں.
یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں 6 لاکھ مزید افغان مہاجرین پاکستان میں آئے ہیں.
اگر اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس کے باوجود افغانستان کے مہاجرین کی تعداد اور آمد میں کمی واقع نہیں ہوئی کہ سال 2002 سے لیکر سال 2021 تک وہاں نہ صرف یہ کہ امن و امان اور گورننس کے معاملات کافی بہتر رہے بلکہ عالمی برادری کی بے پناہ سرمایہ کاری کے باعث روزگار اور ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھ گئے تھے. پاکستان میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1980 کے بعد اس وقت شروع ہوگیا تھا جب سردار داود خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت کی کمیونسٹ حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور محض ابتدائی ایک مہینے کے دوران تقریباً25 سے 35 ہزار افراد قتل کئے گئے. (سابق افغان صدر ببرک کارمل کی حکومت کی ایک رپورٹ).
بعد ازاں پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور بعض عالمی اداروں نے خطے میں سوویت یونین کی مہم جوئی کی آڑ میں ان مہاجرین کو بعض مجاہدین گروپوں کے لیے “دستیاب یا مہیا” کرنے کی پالیسی اختیار کی تو ان کی آمد میں مزید اضافہ ہوا. ابتدا میں ان کو کیمپوں میں رکھا گیا اور پختون خوا میں ان کے لیے تقریباً 11 جبکہ بلوچستان میں 9 بڑے کیمپس قائم کئے گئے تاہم چند برسوں بعد ان کو غیر معمولی آزادی اور سہولیات دی گئیں اور یہ پشاور اور کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں نہ صرف رہائش پذیر ہوگئے بلکہ ان کو روزگار اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت بھی حاصل رہی. اس کام کے دوران پاکستان کے متعلقہ حکام نے بے پناہ دولت کمائی اور یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرگئ.
سال 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین نے تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی. مذکورہ رپورٹ کے مطابق آف دی ریکارڈ سرمایہ کاری ایک ٹریلین ڈالر تک کہی جارہی تھی.
پشاور اور کوئٹہ کے علاوہ افغان مہاجرین اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں بھی نہ صرف آباد ہوئے بلکہ وہ کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے مختلف شعبوں میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کرتے نظر آئیں.
پاکستان میں یہ تاثر بہت عام رہا کہ بدامنی اور جرائم میں افغان مہاجرین کا بڑا ہاتھ رہا ہے اور اس کی بنیاد پر مختلف حلقوں اور حکومتوں نے مختلف اوقات میں نہ صرف افغان مخالف مہم چلائی بلکہ کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا تاہم اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا کہ ان کو غیر قانونی قیام کی اجازت دینے والے اداروں کا کوئی محاسبہ کیوں نہیں دیکھنے کو ملا اور نادرا سمیت بعض دیگر اداروں کا اس تمام صورتحال میں کتنا منفی اور غیر ذمہ دارانہ کردار رہا؟
6 ستمبر2023 کو جب ٹی پی نے چترال اور افغان فورسز نے طورخم پر حملے کیے تو پاکستان میں پھر سے یہ بحث چل نکلی کہ افغانستان کے مہاجرین کو ملک سے نکال دیا جائے اور عام مہاجرین کے علاوہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے علاوہ اسمگلنگ، دیگر سرگرمیوں میں ملوث مہاجرین کے خلاف کارروائی بھی شروع کی گئی تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاجرین کے بارے میں عملاً پاکستان کے متعلقہ اداروں کا کوئی جامع پالیسی سرے سے ہے ہی نہیں اس لئے ان اقدامات کو بھی محض ایک وقتی ردعمل کے طور پر دیکھا گیا.

Exit mobile version