Voice of KP

پبلسٹی کا شوق، نظریات کی لڑائی یا کچھ اور؟

پبلسٹی کا شوق، نظریات کی لڑائی یا کچھ اور؟
عقیل یوسفزئی

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور بعض بنیادی مسائل کو ماضی کی دو طرفہ پالیسیوں اور غلطیوں کے تناظر میں نہ صرف دیکھنا چاہیے بلکہ بعض حلقوں کے رویوں کا بھی اس پس منظر میں دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ جو بات کررہے ہیں یا جو حرکت کررہے ہیں وہ ان کی اپنی سوچ اور اپروچ کا نتیجہ ہے یا وہ چند مبینہ مقاصد یا ایجنڈے کی حصول کیلئے ایسا کرتے رہتے ہیں؟
ہر ملک اور ہر سوسائٹی میں مختلف ایشوز کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کی سوچ موجود ہوتی ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے تاہم بعض معاشروں میں بعض لوگ مسائل اور تلخیاں کم کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافے کا راستہ اپناتے ہیں اور پاکستان کو کافی عرصہ سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے.
سوشل میڈیا کی بے لگام گھوڑے نے سیاست، ریاست، صحافت اور معاشرے کے بعض دیگر اہم شعبوں کو نہ صرف مذاق بناکر رکھ دیا ہے بلکہ ہر دوسرے بندے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی رائے کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرکے اپنی آنا کو تسکین پہنچائیں. ہم سیاسی مخالفت میں ذاتیات پر اترنے کے عادی ہوگئے ہیں اور بعض حساس معاملات کی نزاکت کو سمجھے بغیر پوائنٹ سکورنگ اور سیلف پبلسٹی کے ایسے “خطرناک شوق” میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اب ہر کوئی نہ صرف دوسروں کو آذیت دینے کی ایک مشین کی شکل اختیار کرچکا ہے بلکہ اکثر خودپسندی اور نرگسیت جیسے مسائل کا شکار ہوکر دوسروں کے علاوہ خود کو بھی تکلیف دینے کا سبب بنتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
چند روز سے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی گرفتاری سے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو حالانکہ ایسی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں اور بعد میں نہ صرف اکثر لوگ بعض درکار تقاضوں کے بعد رہا ہوجاتے ہیں بلکہ چند دنوں بعد وہ واقعہ عوام کے علاوہ مدعیان کو بھی یاد نہیں رہتا. ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا تاہم ایسے واقعات کے دوران ہم جذبات میں آکر سیاسی ورکرز اور عوام میں بدگمانی اور نفرت پھیلانے کا راستہ ہموار کردیتے ہیں اور اس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑتا ہے.
جس موصوفہ کی گرفتاری پر آسمان سر پر اٹھایا گیا اس کی جب 9 مئی کے بعد اپنے گھر پر “بات” آئی تو انہوں نے اپنی والدہ کو سیاست سے دستبردار کرادیا تاہم دوسروں نے بوجوہ ان کو بات کرنے کا ایک سٹیج اور موقع فراہم کیا تو انہوں نے پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے ایسے نعرے لگائے اور لگوائے جن کی نہ تو بظاہر کوئی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی فائدہ.
پاکستان میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی بے شمار دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور اکثر دکانیں وہ لوگ چلارہے ہیں جن کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق اور رابطہ ہی نہیں ہوتا شاید اسی تناظر میں اقوام متحدہ نے چند برس قبل ایک پڑوسی جنگ زدہ ملک کی این جی اوز کو دنیا کے کرپٹ ترین اداروں کے نام سے مخاطب کیا تھا. حالیہ مہم میں بھی اکثریت اشرافیہ پر مشتمل ان حلقوں کی رہی جن میں 80 فی صد اس ملک کے عوام کے درمیان رہنا بھی اپنے شان اور پروٹوکول کے منافی سمجھ کر بیرون ملک مقیم ہیں. یہ ایسے واقعات اور نعروں کی آڑ میں بعض تلخ زمینی حقائق کو مسخ کرکے پروپیگنڈا مہم کا حصہ بنتے ہیں اور عوام کو متنفر اور مایوس کرنے کا سبب بنتے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون خوا اور بلوچستان کو نہ صرف متعدد ذیادتیوں اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ادارہ جاتی مسائل بھی موجود ہیں تاہم مسائل کے حل کی بجائے مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے والے بھی جنگ زدہ عوام کے ساتھ عملی طور پر کوئی اچھائی نہیں کررہے۔
جدید ریاستیں بہت طاقتور ہوا کرتی ہیں. جو حلقے عوام کا نام لیکر عام ورکرز اور عوام کو ریاست کے ساتھ لڑانا چاہتے ہیں اور خود تکلیف آنے پر شیشوں کے گھروں میں بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ عوام اور اپنے ملک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھتے. ضرورت اس بات کی ہے کہ جاری حالات اور بعض سنگین نوعیت کے چیلنجز کو مدنظر رکھ کر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ریاست بھی کھلے دل سے کام لے کر درگزر کی پالیسی اختیار کریں تاکہ ایسے عناصر کو غیر ضروری اہمیت اور پبلسٹی نہ ملے۔

Exit mobile version