Voice of KP

افغان سرزمین ، تاریخ کے نازک دوراہے پر

افغانستان کے حالات 1995-96 کی طرح پھر سے خراب ہوتے نظر آرہے ہیں اور معتبر امریکی اور یورپی میڈیا رپورٹس میں دلائل اور واقعات کی بنیاد پر مسلسل یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان نے دو حہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کو عملی شکل میں منتقل نہیں کیا تو ملک میں 1996 کی طرح خانہ جنگی پیداہوجائے گی۔ امریکہ کے دو بڑے اور معتبر ترین اخبارات نے حالیہ رپورٹس میں دو بڑے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری کشیدگی اور ممکنہ قومی حکومت کا فارمولا بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ بن گئی ہے اور یہ کہ افغان فورسز میں سے25 افسران اور اہلکار ایسے ہیں جو کہ طالبان کے حامی ہیں اور ان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ دوسرا یہ کہ داعش کے خا تمے یا کمزور ہونے کا تاثر درست نہیں تھا اور کابل سمیت بعض دیگر شہروں میں داعش کے خوفناک حملوں اور بدترین ہلاکتوں نے بعض نئے خدشات اور سوالات پیدا کیے ہیں اور بدترین انتشار کے خدشات سامنے آرہے ہیں۔

کابل میں ایک زچگی مرکز پر جس طریقے سے گولیاں برسائی گئیں اس نے افغان حکومت اور فورسز کے صلاحیت پر بھی سوال کھڑے کئے ہیں کیونکہ حملہ آوروں کا نہ تو کسی نے دوران حرکت راستہ روکا اور نہ ہی فورسز نے بروقت کارروائی کو یقینی بنایا ۔ اس پر ستم یہ کہ افغان صدر نے تحقیقات اور تفصیلات کے بغیر طالبان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف اعلان جنگ کر ڈالا حالانکہ اس حملے کی نہ صرف طالبان نے کھل کر مخالفت اور مزاحمت کی بلکہ داعش نے رسمی طور پر اس کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ سال 2016 کے بعد داعش نے صرف کابل کو 12 مرتبہ نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے دوران اس گروپ کا نشانہ شیعہ برادری اور عام لوگ یا تقریبات ہی بنے۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور بعض دیگر مسائل پر جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں طالبان نے گزشتہ ڈھائی مہینے کے دوران ریکارڈ حملے کیے تاہم یہ حملے افغان فورسز پر کرائے گئے۔ اگرچہ افغان فورسز نے اس دوران تحمل کا مظاہرہ کیا تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس عرصے میں فورسز بالکل لاتعلق اور خاموش رہی ہیں۔ ان کے حملے بھی مسلسل جاری ہیں ۔مگر پلّہ طالبان کا بھاری رہا۔

افغان فورسز چونکہ حکومت کے اندرونی اختلافات کے اثرات اور سیاسی محاذ آرائی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اس لئے وہ عملاً کاروائیوں میں الجھے رہے اور اس کا طالبان فائدہ اٹھاتے رہے۔ ہفتہ دس روز قبل قومی حکومت کا جو فارمولا سامنے آیا ہے اس کے ساتھ یہ خبر بھی زیر گردش رہی کہ بد نام زمانہ اور متنازعہ وار لارڈ رشید دوستم کو فوج میں اہم ترین عہدہ دیا جا رہا ہے حالانکہ ان پر جنگیں اور جنسی جرائم کے سنگین الزامات ہیں اور پشتون عوام کے علاوہ حکومت اور فورسز میں بھی بڑی تعداد اُن کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ ان کی مجوزہ نامزدگی پر طالبان نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ہفتہ رفتہ کے دوران کابل، ننگرھار اور دیگر علاقوں میں 24 گھنٹے کے مختصر عرصے کے دوران بدترین حملوں کے نتیجے میں پچاس کے لگ بھگ عام شہریوں بشمول بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا اور یہ چاروں حملے داعش نے کئے مگر اعلان ِجنگ طالبان کے خلاف کیا گیا ، جس کا دوسروں کے علاوہ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو اور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے بھی نوٹس لیا۔ دونوں نے اپنے بیانات میں دائش کونہ صرف ذمہ دار قرار دیا بلکہ وہ طالبان اور دوحہ معاہدے کا دفاع کرتے بھی نظر آئے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا لازمی ہے کہ اب تک افغانستان میں داعش کے خلاف حکومت کے مقابلے میں طالبان نے زیادہ کاروائیاں کی ہیں اور حالیہ بیانات میں بھی طالبان نے داعش کو معصوم افغانیوں کا قاتل قرار دے کر جاری حملوں کی کھل کر مخالفت کی ہے اور ان کے دلائل میں وزن بھی ہے۔ اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغان انتظامیہ میں موجود بعض عناصر نے حالیہ حملوں کے بعد حسب روایت پراکسیز اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی بجائے پاکستان پر روایتی الزامات لگائے اور بعض احمقانہ تصاویر اور بیانات کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان اب بھی ان کے بقول منفی کردار ادا کر رہا ہے حالانکہ ان حملوں سے قبل زلمے خلیل زاد نے دورہ راولپنڈی کے دوران پاکستان کے کردار کو نہ صرف سراہا بلکہ ایک بھارتی اخبار کو دہلی میں تفصیلی انٹرویو دے کر بھارتی پالیسی کی مخالفت اور پاکستان کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ طالبان سے براہ راست رابطہ کاری کرے۔ پاکستان سال 2017 کے دوران یہ خدشہ ظاہر کر چکا تھا کہ داعش خطے کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے مگر افغان حکومت اس مسئلے سے لاتعلق رہی اور اس کی تمام توجہ باہمی اختلافات اور طالبان پر مرکوز رہی جس کا نتیجہ آج داعش کے حملوں کی صورت میں بھگتا جا رہا ہے۔

Exit mobile version