Voice of KP

انتخابات کااعلان

Arrangements for by-elections in Peshawar are complete

وصال محمد خان
باآخرالیکشن کمیشن کی جانب سے8 فروری 2024ء کوعام انتخابات کااعلان کردیاگیاہے اگرچہ یہ اعلان بہت پہلے ہوجاناچاہئے تھامگر حلقہ بندی وغیرہ کے چکروں میں انتخابات تین ماہ کی تاخیرسے منعقدہونگے انتخابات انعقادکے حوالے سے آئین بالکل واضح ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے توساٹھ دن کے اندرجبکہ مدت پوری نہ کرنیکی صورت میں نوے دن کے اندرانتخابات کاانعقادہوناہے مگراس بار ملکی حالات اورسیاسی واقعات انتخابات کے بروقت انعقادکی راہ میں حائل ہوگئے ایک توعمران خان نے شہبازشریف حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کرنے اوراپنی مقبولیت کے زعم میں دوصوبائی اسمبلیاں وقت سے پہلے بلاسبب توڑدیں پھرحکومت کی بھی ضدتھی کہ انتخابا ت کاانعقادعمران خان کی مرضی سے نہیں آئین کی منشاکے مطابق ہوگااس معاملے میں عدالتوں کوبھی ملوث کیاگیا مگرعدالتی احکاما ت پر بھی عملدرآمدممکن نہ ہوسکا جہاں ضداوراناکے بت کھڑے کئے جائیں اور میں نہ مانوں کی رٹ دہرائی جائے وہاں آئین پس پشت چلاجاتا ہے اورہٹ دھرمی کے مقابلے میں انا کی منشاچلتی عمران خان کوخیبرپختونخوااورپنجاب اسمبلیاں وقت سے پہلے بلاوجہ توڑنے کی ضرورت نہیں تھی ان اسمبلیوں کی مدت تکمیل میں ابھی سات ماہ کاعرصہ باقی تھاکہ عمران خان نے پے درپے سیاسی ناکامیوں کابدلہ ان اسمبلیوں سے لینے کی ٹھانی انہیں بہت سمجھایاگیاکہ اسمبلیاں توڑنے سے نہ صرف معاملات انکے ہاتھ سے نکل جائیں گے بلکہ یہ ملک کابھی نقصان ہوگامگرانہوں نے ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے کوئی معقول بات سننے یاماننے سے گریزکیاجس کے نتیجے میں دو صوبے چودہ ماہ تک منتخب حکومت سے محروم رہے اور انکی اپنی پارٹی بھی اس دوران منتشرہوگئی میرے نزدیک بروقت انتخابات کے عدم انعقادسے عوام،صوبوں اورملک کاجونقصان ہواہے اسکی ذمہ داری عمران خان اوراسکی پارٹی پرعائدہوتی ہے اگرعمران خان کی منشاپردوصو بائی اسملیوں کے انتخابات چھ سات ماہ قبل منعقدہوجاتے توآج قومی اوردوصوبائی اسملیوں کے انتخابات کاانعقادہوتااس طرح دوصوبائی اسملیوں کے انتخاب کے وقت مرکزمیں شہبازشریف کی مخلوط حکومت قائم ہوتی اگران انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوتی توواہ واہ۔اوراگراسے ناکامی کا سامناکرناپڑتاتوعمران خان ایک مرتبہ پھرآسمان سرپہ اٹھاکردھاندلی کے نعرے لگاتے اورملک کو سیاسی عدم ستحکام سے دوچارکردیاجاتااور اگران دواسملیوں کے انتخابات اس وقت منعقدہوجاتے اوراب انہی حکومتوں کے ہوتے ہوئے باقی دوصوبائی اورقومی اسمبلی کے انتخابات منعقدہوتے توآج یاتوان دوحکومتوں کومعطل کرناپڑتایاپھرانتخابی نتائج متازعہ صورت اختیار کرتے اسطرح وطن عزیزایک طویل عرصے تک سیاسی اورآئینی عدم استحکام کاشکاررہتااورکون جانے کہ اس عدم استحکام کے پیٹ سے کونسی بلائیں جنم لیتیں یعنی عمران خان کی جانب سے دو صوبائی اسملیاں توڑنانہ صرف سیاسی طورپرغیردانشمندانہ اوراحمقانہ فیصلہ تھابلکہ اسکے برے اثرات نجانے ملک کاکیاحشرکرتے اسملیوں کا وقت سے پہلے توڑنااگرچہ آئینی طورپرتودرست ہے مگراس کیلئے کسی معقول وجہ کاہوناضرور ی ہوتاہے یہ توممکن نہیں کہ کسی سیاسی راہنماکے پیٹ میں مروڑاٹھے اوروہ اسملیوں پرچڑھ دوڑے اسملیوں کے توڑنے کے خلاف اگرچہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی سوالات اٹھائے گئے کہ یہ اسملیاں غیرآئینی طورپر،بلاجوازاورضدوہٹ دھرمی میں توڑی گئی ہیں مگرنقارخانے میں طوطی کی اس آوازکواہمیت نہیں دی گئی اورقراردیاگیا کہ اسمبلی توڑنا وزیراعلیٰ کااستحقاق ہے۔ اگرہروزیراعلیٰ کسی ذہنی خلفشارسے دوچار سیاسی راہنماکی ہدایت پراسمبلی توڑتارہے توکون جانے ملک اورصوبوں کاکیاحال ہو۔بہرحال قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر اگرچہ انتخابات کااعلان ہوناچاہئے تھامگرنئی مردم شماری کے سبب نئی حلقہ بندی بھی ضروری تھی جس کیلئے انتخابات کم ازکم تین ماہ تاخیرسے منعقدہونگے گزشتہ ہفتے تک ملک میں بے یقینی کے بادل چھائے رہے کوئی نگران حکومت کے دوسال تک برقراررہنے کی پیشنگوئی کر رہاتھااورکوئی ٹیکنوکریٹ حکومت آنے کی نویدیں سنارہاتھابھلاہوسپریم کورٹ کاجس نے الیکشن کمیشن اورصدرکوایک ساتھ بٹھاکرانتخابات کی تاریخ دلوادی اگرچہ انتخابات کی تاریخ کاسپریم کورٹ کے حکم پرسا منے آناایک اورفاش غلطی ہے کیونکہ ہم ہرمعاملہ عدالتوں میں لے جاتے ہیں یعنی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ثابت ہواکہ سیاستدان اس قابل بھی نہیں کہ وہ آئینی ذمہ داری پوری کرسکیں ہمارے سیاستدان ابھی تدبرودانشمندی سے خاصے دورہیں نہ ہی ہمارے ہاں جمہوری روئیے پنپ سکے ہیں اورنہ ہی ہم جمہوریت پراسکی روح کے مطابق عمل کرنے میں مخلص ہیں جس سیاستدان کوجوبھی سوٹ کرتاہے اس کاسیاسی مفاد جس فیصلے میں ہو اسی پرعملدرآمدکرتاہے نہ ہی آئین کومقدم سمجھاجاتاہے اورنہ ہی ملک یاعوام کی کوئی فکرہے عمران خان کے الٹے سیدھے فیصلوں سے سسٹم کی چلتی گاڑی کو جھٹکے لگے اورپاکستان کی جمہوریت کئی سال پیچھے چلی گئی۔حیرت انگیزطورپرہم جمہوریت کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں مگرہمارے اعمال جمہوریت کی نفی کرتے ہیں ہمارے ہاں جمہوریت اپنی حکومت کوسمجھاجاتاہے جو ایک غلط ٹرینڈہے بات بات پرعدالتوں سے رجوع کیاجاتاہے اورمرضی کافیصلہ نہ آنے پرعدالتوں کوتنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے اسی طرح فوج کو آوازیں دے دے کرمداخلت پرمجبورکیاجاتاہے اورجب فوج مداخلت کرتی ہے توجمہوریت اورآئینی بالادستی کاواویلاشروع ہوجاتا ہے۔ درحقیقت ہمارے ہاں جمہوری رویئے اور برداشت موجودنہیں ہے سیاستدان بے صبرے پن کامطاہرہ کرتے ہیں وہ اپنی باری یاوقت کا انتظارنہیں کرتے۔ ہمیں جمہوری روئیے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جمہوریت کی گردان سے جمہوری رویئے پروان نہیں چڑھتے بلکہ اپنے اندرجمہوری روئیے پیداکرنے ہونگے برداشت پیداکرنی ہوگی اورہرحکومت کووقت سے پہلے رخصت کرنے کی روش ترک کرناہوگی کسی سیاستدان کوپتاچلتاہے کہ وہ عوام میں مقبول ہیں توالیکشن الیکشن کی گردان شروع کردیتاہے اور نہیں دیکھتاکہ ابھی تواسمبلی کی مدت باقی ہے بس اسے اپناآپ مقبول لگتاہے تواس کاحق ہے کہ وہ انتخابات کامطالبہ کرے۔یہ رویئے ترک کرناہونگے ان روئیوں سے ملک پستی کی جانب گامزن ہوچکاہے ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔ورنہ عین ممکن ہے کہ انتخابات کا اعلان سننے کوہمارے کان ترس جائیں۔

Exit mobile version