Voice of KP

کویٹہ میں اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس اور ریاستی صف بندی

Aqeel Yousafzai editorial

کویٹہ میں اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس اور ریاستی صف بندی

وزیر اعظم، آرمی چیف، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ سمیت وفاقی کابینہ کے متعدد وزراء نے کویٹہ جاکر بلوچستان میں حال ہی میں ہونے والے دہشت گرد واقعات سے متعلق مختلف امور کا جائزہ لیتے ہوئے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں اور پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ نہ تو مذاکرات کئے جائیں گے اور نا ہی کسی کے ساتھ رعایت برتی جائے گی۔ اہم اجلاس میں تمام وفاقی اور صوبائی حکام کی موجودگی میں بلوچستان کے انتظامی مسائل کے حل کے لیے موقع ہی پر متعدد احکامات جاری کیے گئے۔ اس سے ایک روز قبل کمانڈنٹ ایف سی معظم جاہ انصاری کو انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان تعینات کیا گیا تھا اور انہوں نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی ۔ ان کو ٹیررازم سے نمٹنے کا خاصہ تجربہ ہے اس لیے اس تعیناتی سے متعلقہ حکام کو کافی توقعات ہیں۔

اسی دوران اس قسم کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نئی حکمت عملی کے تحت نہ صرف یہ کہ اپنی موجودگی بڑھائی بلکہ متعدد کارروائیاں بھی کیں ۔ بھارت کا میڈیا اس تمام صورتحال کو کھلے عام پاکستان اور چین کی انڈرسٹینڈنگ اور پراجیکٹس کے لیے بلوچ مزاحمت کا نام دیتا رہا بلکہ اس کے دفاعی تجزیہ کار بلوچستان میں بھارت کی کھلی مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ بھی لیتے رہے تاہم پاکستان میں ہمیں اس طرح کا قومی بیانیہ نظر نہیں آیا جس کی ایسے سنگین حالات میں ضرورت ہوا کرتی ہے۔

دوسری جانب گزشتہ چند دنوں کے دوران خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی آور مختلف نوعیت کے حملوں کے تقریباً 9 واقعات ہوئے تاہم صوبائی حکومت حسب معمول اس صورتحال سے لاتعلق ہی رہی۔ حسب سابق وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لیفٹیننٹ کرنل کو ان کے دو بھائیوں اور کزن کے ہمراہ طالبان کے ایک گروپ نے بندوق کی نوک پر اس وقت اغواء کیا جب وہ اپنے والد کی فاتحہ خوانی میں ایک مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے مگر صوبائی حکومت اس اقدام سے بھی لاتعلق رہی اور اسلام آباد میں صوبائی کابینہ کا جو ” سٹیج ” سجایا گیا تھا اس کے ایجنڈے میں نہ تو آمن و امان کی صورتحال شامل تھی نہ ہی جاری حالات اور ایسے واقعات پر کابینہ میں کوئی فیصلہ یا اقدام نظر آیا۔ اس رویے نے عوام کو نہ صرف یہ کہ بہت مایوسی سے دوچار کیا بلکہ بعض سنجیدہ حلقوں نے یہ مطالبہ بھی شروع کیا کہ صوبے کی حکومت کی ” کارکردگی” اور سیکورٹی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے گورنر راج لگایا جائے۔

عقیل یوسفزئی

Exit mobile version