Voice of KP

ستمبر میں حملوں کی تعداد میں اضافہ اور ریاستی ردعمل

عقیل یوسفزئی
ستمبر 2023 کا آخری ہفتہ پاکستان کی سکیورٹی کے تناظر میں غیر معمولی طور پر بہت بھاری ثابت ہوا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس ہفتے کے دوران تقریباً 9 حملے کئے گئے. بعض متوقع حملوں کو فورسز اور انٹیلی جنس اداروں نے ناکام بنایا تو متعدد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بھی کئے گئے.
29 ستمبر کو حملہ آوروں نے پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں تین حملے کئے جس کے نتیجے میں تقریباً 62 افراد جاں بحق ہوگئے. سب سے بڑا حملہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں عید میلاد النبی کے ایک جلوس میں کرایا گیا جو کہ ایک خودکش حملہ تھا. اس کے نتیجے میں 55 افراد شہید جبکہ 20 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے.
اسی روز پختون خوا کے شورش زدہ علاقے ضلع ہنگو میں ایک پولیس اسٹیشن کی حدود میں واقع ایک مسجد پر اسی طرز کا ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً نصف درجن افراد نشانہ بنے. اگر ایک پولیس اہلکار نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خودکش کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل مارا نہیں ہوتا تو مستونگ کی طرح یہاں بھی کافی تباہی ہوجاتی کیونکہ حملے کے وقت مسجد میں تقریباً 35 افراد موجود تھے. فائرنگ کی آوازیں سن کر وہ سب مسجد سے باہر نکل آئے جس کے باعث کئی جانیں محفوظ رہیں.
اسی صبح بلوچستان کے سرحدی علاقے ژوب میں سیکیورٹی فورسز نے ایک مسلح گروپ کو سرحد پار سے داخل ہونے سے روکنے کے لیے ایک کارروائی کی جس کے نتیجے میں چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے اور دوسری جانب سے بھی کئ اموات ہوئی.
یہ تمام کارروائیاں 36 گھنٹوں کے دوران ہوئیں اور وہ بھی عید میلاد النبی کے موقع پر.
قبل ازیں پشاور میں ایک مجوزہ حملے کو اسی مبارک موقع پر ناکام بناتے ہوئے دو خودکش حملہ آوروں کو ٹارگٹ تک پہنچنے سے قبل ٹھکانے لگانے کی اطلاعات موصول ہوئیں.
مستونگ کے حملے سے تحریک طالبان پاکستان نے رسمی طور پر ماضی کے بعض دیگر واقعات کی طرح لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وہ اس طرح کے حملوں پر یقین نہیں رکھتی تاہم سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی ہی نے کیا ہے اور اس سے لاتعلقی اس لیے ظاہر کی گئی کہ ایسے واقعات پر عوامی ردعمل اور مخالفت سے خود کو بچایا جاسکے. اس ضمن میں جنوری 2023 کو پولیس لائن پشاور کی ایک مسجد کی مثال دی گئی جس سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی ظاہر کی تھی تاہم بعد میں جب گرفتاریاں اور تحقیقات ہوئیں تو اس میں حکام کے مطابق ٹی ٹی پی ہی کا ایک گروپ ملوث نکلا. کورکمانڈر پشاور اور دیگر اعلیٰ حکام ہنگو واقعہ کے بعد ہنگو گئے جہاں سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اہم ہدایات جاری کی گئیں.
دوسری جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی ٹیم کے ہمراہ کویٹہ گئے. انہوں نے زخمیوں کی عیادت کی اور کویٹہ میں صوبائی اپیکس کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی. اس موقع پر بلوچستان کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور حکمت عملی وضع کی گئی. آرمی چیف نے کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھیں جائیں گے اور یہ کہ ان حملوں میں دوسروں کے علاوہ وہ بعض پڑوسی ممالک بھی شامل ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تاہم ان سب کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے گا.
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پریس بریفنگ کے دوران براہ راست بھارتی ایجنسی را پر بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری ڈال دی.جبکہ دیگر متعلقہ حکام بھی یہ کہتے پائے گئے کہ را حملہ آور گروپوں کی سرپرستی کررہی ہے.
دوسری جانب 30 ستمبر اور یکم اکتوبر کی درمیانی شب تقریباً ایک درجن افراد نے صوبہ پنجاب کے سرحدی علاقے ضلع میانوالی میں واقع ایک پولیس پوسٹ پر دو اطراف سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں دو سے تین حملہ آور مارے گئے اور ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوا. ستمبر میں اس ڈسٹرکٹ میں ہونے والا یہ تیسرا حملہ تھا جبکہ پنجاب کے دو دیگر علاقوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی.
اس صورتحال سے یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ شاید اب جنوبی پنجاب کو بھی نشانہ بنانے کی پلاننگ کی جارہی ہے. اس سے قبل پنجاب میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہتے تھے مگر اس نوعیت کے حملوں سے پنجاب محفوظ رہا. بعض صحافیوں کے مطابق عید الاضحٰی کے دنوں میں ٹی ٹی پی کے افغانستان میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران طے پایا تھا کہ پنجاب پر حملوں کی ابتداء کی جائے تاکہ ریاست پر دباؤ بڑھایا جاسکے. جس کے بعد پنجاب کے لیے شیڈو گورنر اور دیگر عہدیداروں کے ناموں کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا. میانوالی اور بعض دیگر علاقوں میں ہونے والے ان حملوں کو اسی فیصلہ کے تناظر میں دیکھا گیا.
جن دنوں یہ سب کچھ ہوتا رہا اس سے قبل دنوں دو اہم خبریں سامنے آئیں. ایک پشاور میں ہونے والے صوبائی اپیکس کمیٹی کے اس اجلاس کا انعقاد جس میں دوسروں کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم نے بھی شرکت کی اور دوسری یہ خبر کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے مولوی ہیبت اللہ کے حکم پر چترال پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے پر تحریک طالبان پاکستان کے 200 افراد کو گرفتار کیا ہے. اس خبر کی تصدیق نہ ہو سکی تاہم یہ اطلاعات زیرِ گردش کرتی رہیں کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی ایسی سرگرمیوں پر واقعتاً ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا.اسی پس منظر میں یہ اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں واپس آنے پر مجبور کی گئی ہے. اس لئے ایک نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ یہ حملے اس پیشرفت کا نتیجہ ہیں. پشاور میں اپیکس کمیٹی کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں آرمی چیف کی ہدایات حسبِ معمول بہت واضح تھیں. اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سی ٹی ڈی نے اس کے فوراً بعد تقریباً 50 حملہ آوروں کی ایک لسٹ پبلک کی جو کہ مختلف کارروائیوں میں ملوث رہے. ان کی ہیڈ منی بھی بڑھادی گئ جبکہ فورسز کی کارروائیاں بھی مزید تیز کردی گئیں. ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران پشاور کے ایک علاقے سے بڑی مقدار میں 28 یا 29 ستمبر کو راکٹ برآمد کیے گئے.
اس سے قبل اسی ھفتے پختون خوا کے علاقے لکی مروت میں بیک وقت پولیس کی ایک چیک پوسٹ، جیل اور پولیس اسٹیشن پر رات کے وقت حملے کئے گئے جن کو ناکام بنایا گیا تاہم اس سے یہ تاثر لیا گیا کہ شاید کوئی بڑا کچھ ہونیوالا ہے.
اس تمام صورتحال نے خیبر پختون خوا کی سیاسی قوتوں کو کافی پریشان کیا کیونکہ ملکی سطح پر جنوری یا فروری میں عام انتخابات کی تیاری دکھائی دی . اسی پس منظر میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 30 ستمبر کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ بلوچستان اور پختون خوا میں ان حملوں کے باعث الیکشن کے لئے ماحول بلکل سازگار نہیں ہے اور یہ کہ دوسرے تو ایک طرف وہ بذات خود بھی کسی الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتے.
اسی روز افغانستان کے لیے امریکہ کے نمایندہ خصوصی تھامس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان پر ہونے والے حملوں پر عالمی برادری کو تشویش ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے معاملے میں افغان اور پاکستانی طالبان ایک پیج پر ہیں.
مستونگ اور ہنگو کے حملوں پر جہاں پاکستان کے اہم علماء نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں ایسے حملوں کو خلاف شریعت قرار دیا وہاں ان حملوں پر اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، چین، سعودی عرب،کویت اور ترکی سمیت متعدد دیگر ممالک نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا.
ماہرین کے مطابق پاکستان ان حملوں پر مزید خاموش نہیں رہے گا کیونکہ افغانستان کی حکومت کا رویہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے مطالبات اور خواہشات کے مطابق درست نہیں رہا اور شاید کہ پاکستان مزید سخت اقدامات پر مجبور ہوجائے کیونکہ پاکستان میں ستمبر کے مہینے میں متعدد اہم اقدامات دیکھے گئے اور موجودہ عسکری قیادت سیکورٹی کے معاملے پر سابق قیادت کے بر عکس کوئی کمپرومائز کرتی دکھائی نہیں دے رہی.

Exit mobile version