Voice of KP

صوبے کو درپیش چیلنجز اور وزیر اعلیٰ کی تقریر

Challenges facing the province and speech of the Chief Minister

عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنی پہلی باضابطہ تقریر میں کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ” ملزمان” کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ہے اگر اس میں سے کچھ ” غلط” نکل آیا تو متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے جس دوڈوک الفاظ میں چیف ایگزیکٹیو کے طور پر اپنی پارٹی وابستگی کو صوبے کے اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے کی پالیسی اپنائی وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آگے جاکر وہ اس جنگ زدہ صوبے کے ساتھ کیا کچھ کرنے والے ہیں ۔ ان کے انداز تخاطب نے پولیس فورس اور دیگر اداروں کے افسران کے علاوہ ان حلقوں کی تشویش میں بھی اضافہ کردیا ہے جو کہ صوبے کے سیکورٹی چیلنجز اور معاشی بدحالی سے پریشان ہیں ۔ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو سے ایک پارٹی کے کارکن زیادہ دکھائی دیے اور شاید عمران خان کی جانب سے ان کی نامزدگی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ موصوف تصادم اور کشیدگی کا راستہ اختیار کرکے آگے بڑھیں گے ۔ جس پولیس فورس کو انہوں نے اسمبلی فلور پر دھمکیاں دی ہیں اس فورس نے ہزاروں اہلکاروں اور سینکڑوں افسران کی قربانی دے کر اس صوبے میں امن کے قیام کو دیگر فورسز کے ساتھ مل کر ممکن بنایا۔ اس تقریر سے اس فورس کے شہداء کے لواحقین اور فرائض سرانجام دینے والوں کو جو دکھ پہنچا ہوگا اس کا شاید موصوف اور ان کے لیڈر کو احساس نہیں ہورہا ۔ ان کو پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ چارسدہ جاکر ایس پی اعجاز خان شہید کے ورثاء سے اظہار تعزیت کرتے مگر انہوں نے الٹا اس فورس کو دھمکیاں دیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ فرنٹیئر کور کے سربراہ اور گورنر پختونخوا نے متاثرہ خاندان کو وزٹ کیا ورنہ دیگر تو لاتعلقی ہی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ اس تمام صورتحال کے نتائج اور اثرات صوبے کو بھگتنے پڑیں گے اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔ عین اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار جنید اکبر خان نے قومی اسمبلی کے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔

Exit mobile version