Voice of KP

کراس بارڈر ٹیررازم اور پاکستان، امریکہ کا موقف

challenges-and-actions-needed-by-the-pakistani-state-and-society

عقیل یوسفزئی
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور ان کے اتحادیوں نے یہ سمجھ کر حملوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے کہ پاکستانی ریاست اور سوسائٹی نہ صرف یہ کہ ایک پیج پر ہے بلکہ علماء اور عوام بھی یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ شدت پسندی کا خاتمہ لازمی ہوگیا ہے. خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقے اور جنوبی اضلاع کے علاوہ بلوچستان بھی حملوں کی ذد میں ہے اور گزشتہ دو تین دنوں کے دوران جہاں تیراہ میں جھڑپ ہوئی وہاں 3 جنوبی اضلاع میں پولیس پر چار حملے ہوئے جن کو پسپا کرتے ہوئے ناکام بنایا گیا. تیراہ میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل کی جنازے کو آرمی چیف اور نگران وزیراعظم نے خود کندھا دیا جس کا مقصد جہاں اپنے شہداء جو عملاً خراج عقیدت پیش کرنا تھا تو وہاں یہ پیغام دینا بھی مقصود تھا کہ مسلسل حملوں کے باوجود حملہ آور قوتوں سے کوئی رعایت زیر غور نہیں ہے.
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بدھ کے روز اپنی ایک تفصیلی پریس کانفرنس میں کہا کہ جب سے افغانستان میں موجودہ عبوری حکومت نے کنٹرول سنبھال لیا ہے پاکستان پر ہونے والے حملوں کی شرح یا تعداد میں 60 فی صد اضافہ ہوا ہے. ان کے مطابق افغانستان کی حکومت کو دہشت گردوں کی لسٹ بھی بھیجی گئی ہے مگر افغان حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ پاکستان پر ہونے والے متعدد حملوں میں نہ صرف ٹی ٹی پی براہ راست ملوث رہی بلکہ متعدد بار افغان باشندے بھی ملوث پائے گئے اور اسی سے نمٹنے کیلئے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں سمیت تمام تارکین وطن کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا گیا. ان کے مطابق پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو جاری رکھے گا اور ہماری خواہش ہے کہ افغان حکومت اور عوام کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم رکھیں جائیں. تاہم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز نے بہت سی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں.
دوسری جانب امریکا نے منگل کے روز ایک رسمی بیان میں پاکستان پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سیکیورٹی کو درپیش مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کو یقینی بنائیں.
اسی طرح گزشتہ روز داعش نے افغانستان میں رواں سال کے دوران پانچواں حملہ کیا جس کے نتیجے میں 7 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے. یہ اس جانب اشارہ ہے کہ اگر پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی ایک بار پھر خطرہ بنی ہوئی ہے تو داعش افغانستان میں پھر سے سرگرم عمل ہوگئی ہے اور اس صورتحال نے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کو نئے سیکورٹی چیلنجز سے دوچار کردیا ہے.

Exit mobile version