Voice of KP

ٹرمپ سے وابستہ امیدیں

Hopes associated with Trump

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل 45 ویں صدر بھی ٹرمپ ہی تھے۔ امریکی تاریخ میں شائد پہلی بار کوئی شخص کسی کارکردگی کی بجائے دلفریب نعروں، سوشل میڈیا کے استعمال اور منہ پھٹ ہونے کے سبب دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس انتخاب میں ان کی پارٹی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ ذاتی پہچان اور مقبولیت کے سبب اس عہدۂ جلیلہ تک پہنچنے میں سرخرو ہوئے ہیں۔ امریکہ چونکہ واحد سپرپاور ہے اس لئے اس کے صدارتی انتخاب پر دنیا کی نظریں جمی رہتی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں اخباروں کی سرخی ‘‘امریکی عوام آج دنیا کا حکمران منتخب کرینگے’’ ہوتی ہے۔

پاکستان چونکہ ابتدا سے ہی امریکی کیمپ کا حصہ رہا ہے اس لئے یہاں بھی امریکی صدارتی انتخاب سے لوگ باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ دیگر لوگ تو محض باخبر رہنے کیلئے امریکی صدارتی انتخاب میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی نے اس بار خود کو امریکی صدارتی انتخاب کا حصہ سمجھ لیا۔ سال بھر پہلے سے پارٹی قائدین نے کارکنوں کو ٹرک کی اس بتی کے پیچھے لگا دیا تھا کہ جب ٹرمپ صدر منتخب ہونگے تو وہ عمران خان کو رہائی دلوا ئینگے۔ اسی ایک طبقے نے امریکی صدارتی انتخاب میں وہاں کی عوام سے بھی بڑھ کر دلچسپی لی اور ان کی دلچسپی نے پاکستان میں ایک خودساختہ انتخابی ماحول بنا دیا تھا۔

اور یہ ماحول بنانے میں بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر قائدین کے کچھ واشگاف اور کچھ معنی خیز بیانات نے اہم کردار ادا کیا۔ ان لوگوں کو نہ ہی ملک کی خودمختاری کی پروا ہے اور نہ ہی عزت نفس کی فکر ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگاتے رہے ہیں۔ سائفر کے رچائے گئے ڈرامے کے تحت وہ دو سال تک امریکی سازش کا چورن بیچتے رہے، اپنی حکومت کے خاتمے پر تو انہوں نے باقاعدہ طور پر امریکہ سے آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے اور ‘‘ہم کوئی غلام ہیں’’ کا سلوگن دیا گیا ہے۔ مگر عمران خان کی رہائی کیلئے اسی امریکہ کی جانب مدد طلب نظروں سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کا ایک محدود طبقہ سمجھتا تھا کہ یہاں حکمرانی امریکہ کی نظر التفات کی محتاج ہوتی ہے، غالب اکثریت کو اس مفروضے سے اتفاق نہیں تھا مگر پی ٹی آئی نے جس شد و مد کے ساتھ ٹرمپ سے نہ صرف امیدیں وابستہ کیں بلکہ یہ پرچھار بھی کی کہ ‘‘ٹرمپ آوے گا، تے ساڈا خان رہائی پاوے گا’’۔ ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کرنے اور اس کی پرچھار کرنے سے کچھ اور ہوا یا نہ ہوا مگر پاکستان میں پی ٹی آئی کارکنوں کا یہ یقین پختہ ہوگیا کہ یہاں حکمرانی دینا اور چھیننا امریکہ کے اختیار میں ہے۔ امریکہ جب چاہے یہاں حکومت کی رخصتی عمل میں آتی ہے اور اس کی آشیرباد سے حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔

اور یہ تاثر اس جماعت کی جانب سے قائم ہوا جو ‘‘ہم کوئی غلام ہیں’’ کا سلوگن رکھتی ہے۔ اس سے قبل عمران خان نے نہ صرف امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگایا بلکہ ‘‘رجیم چینج’’ کے حوالے سے ایک بیانیہ بنا کر باقاعدہ طور پر اس کی ترویج کی مگر اب نجانے کیا ہوا کہ تحریک انصاف کی پوری جماعت باجماعت ٹرمپ کی کامیابی کیلئے دعا گو رہی۔ صدر ٹرمپ جب برسر اقتدار تھے تو عمران خان نے بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کیا جس میں بہت سی باتوں کے علاوہ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران انہوں نے نواز شریف وغیرہ کے اے سی اتروانے کا اعلان کیا، آج عمران خان جیل میں ہیں اور وہ سہولیات کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں۔

دورۂ امریکہ کے دوران عمران خان نے پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کیلئے تو کوئی کردار ادا نہ کیا۔ کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی صلاحیت موجود نہیں تھی جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو، البتہ صدر ٹرمپ کیلئے یہ خدمات ضرور انجام دیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے اندر غیر قانونی طور پر ضم کیا۔ مبینہ طور پر ٹرمپ نے عمران خان کو قائل کیا کہ وہ بھارت کے اس اقدام پر آنکھیں بند کرکے خاموش رہیں اور خان نے بالکل یہی کیا۔ انہوں نے دوچار مرتبہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے خاموشی اختیار کرنے اور اس قسم کے چند دیگر غیر ضروری نوٹنکیاں کر کے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔

عمران خان کو یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کی بات ماننے اور ان کیلئے خدمات انجام دینے کا صلہ ملے گا۔ اس لئے اب وہ نہ صرف ان کی رہائی کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے بلکہ انہیں رہا کروا کر برسر اقتدار لانے کیلئے پورا زور لگائیں گے، جس کے نتیجے میں عمران خان برسر اقتدار آ کر پاکستان کی تباہی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ سلسلہ اپریل 2022ء میں امریکی سازش کے باعث ادھورا رہ گیا تھا۔ اس بیانئے سے ایک جانب اگر ملک کی بدنامی ہوتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدان امریکہ سے اقتدار دلانے کی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف کے حصے میں بھی کوئی نیک نامی نہیں آتی۔

یہ جماعت اور اس کے سربراہ خود کو عزت نفس، خودمختاری، جمہوریت اور انقلاب کے داعی سمجھتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ اقتدار کیلئے ٹرمپ کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ افسوس ہے اس جماعت اور اس کے راہنماؤں کے اس دوغلے کردار پر، یہ اقتدار کیلئے امریکہ جیسے ملک کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور وہاں کسی شخص کے انتخاب کیلئے دعائیں مانگتے ہیں مگر اپنے سابقہ اور موجودہ کردار پر غور نہیں فرماتے۔ یہ اگر اپنے اعمال پر نظرثانی کریں، اپنا قبلہ درست کریں، دوسروں کی عزتیں اچھالنا بند کر دیں اور اپنی اداؤں پر کچھ غور کریں تو اقتدار انہیں پاکستانی عوام نے دینا ہے۔

ان کی سابقہ اور موجودہ کارکردگی کے بل بوتے اقتدار تک رسائی ممکن نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں کوئی منصوبہ نہیں محض جھوٹے بیانئے ہیں، نعرے ہیں، دعوے ہیں، الزام تراشی اور بہتان طرازی کے فن میں مہارت ہے۔ صدر ٹرمپ سے اول تو یہ امید نہیں کہ وہ پاکستان سے اس قسم کا کوئی بودا مطالبہ کریں گے لیکن اگر ذولفی بخاری اور جمائمہ گولڈسمتھ کی ان تھک کوششوں سے ایسا ممکن ہوا تو ریاست پاکستان امریکہ کا کوئی زرخرید غلام نہیں۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ایٹمی دھماکوں کے وقت امریکی دباؤ برداشت کرچکی ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی ٹرمپ سے وابستہ امیدیں پیوستہ خاک ہونے کے روشن امکانات ہیں۔

وصال محمد خان

Exit mobile version