Voice of KP

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

Wisal Muhammad Khan

وصال محمد خان

ہفتہء گزشتہ کے دوران صوبائی اور قومی منظرنامے پر بنوں واقعے کی گونج سنائی دیتی رہی رواں ہفتے بھی بنوں ہی موضوع بحث ہے۔ دوچار دن تک تو معاملات دھند کی دبیز چادر میں چھپے رہے۔ شرپسند صوبے کی طول وعرض میں مختلف قسم کی افواہیں پھیلاتے رہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق واقعے میں صرف ایک شخص جاں بحق ہوا ہے مگر دوچار دن تک صوبے میں ڈیڑھ دوسوافراد کی ہلاکت کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ تین روز تک صوبے میں انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں۔ انٹرنیٹ معطلی سے افواہوں کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا جھوٹی اور من گھڑت خبروں کا یہ سلسلہ اب صنعت کا روپ دھار چکا ہے۔ کوئی بھی من گھڑت خبر لمحوں میں پھیل جاتی ہے اور پشتو مقولے کے مطابق ‘‘چہ رشتیارازی نو دروغوکلی وران کڑے وی ’’یعنی سچ سامنے آنے تک جھوٹ بستیاں اجھاڑ چکا ہوتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال بنوں کے حوالے سے بھی رہی۔

بہرحال اب صورتحال کنٹرول میں ہے مگر اس حوالے سے صوبائی حکومت کے کردار پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکے ہیں۔ صوبائی حکومت حالات کا بر وقت اور درست اندازہ لگانے میں ناکام رہی جس سے معاملات بگاڑ کا شکار ہوئے۔ بنوں جرگہ کے ساتھ بیٹھک اگر بر وقت منعقد ہوتی اور وزیر اعلیٰ و صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تو معاملات سنبھالنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔

بنوں کے منتخب نمائندگان اور عمائدین پر مشتمل جرگہ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں علی امین گنڈاپور سے ملاقات کی جس میں ان کے سامنے 11 نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا۔ ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ بنوں میں آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہیں، بنوں میں گڈ اور بیڈ طالبان کے مراکز کا مستقل طور پر خاتمہ کیا جائے، سرچ آپریشن کے نام پر مدارس گھروں اور افراد کی بے توقیری نہ کی جائے، جمعہ خان روڈ کو بند نہ کیا جائے (جمعہ خان روڈ پر بنوں چھاؤنی واقع ہے جہاں 15 جولائی کو دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں آٹھ فوجی جوان شہید اور 10 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے)، علاقے میں طالبان کی پٹرولنگ کا نوٹس لیا جائے اور مقامی انتظامیہ کو ایکشن کا مکمل اختیار دیا جائے، مقامی پولیس کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے اور پولیس کو وسائل مہیا کرکے اس کی ضروریات پوری کی جائیں، پولیس کو بلاتفریق ایکشن کا اختیار دیا جائے، سی ٹی ڈی پولیس کو فعال اور بااختیار بنایا جائے تاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی ہو اور مدارس سمیت مکانات پر بلا جواز چھاپے نہ مارے جائیں۔

وزیراعلیٰ نے جرگہ کے مطالبات سے اتفاق کرتے ہوئے جمعرات کو ای پیکس کمیٹی کا اجلاس بلالیا۔ بنوں کے 45 رکنی جرگہ کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں بیشتر کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے۔ امن و امان کا قیام اور پولیس، سی ٹی ڈی، طالبان کی رات کے وقت گشت وغیرہ کے تمام معاملات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں مگر صوبائی حکومت یہ تمام معاملات وفاق یا فوج کے سر تھوپ کر بزعم خود بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ بنوں قومی جرگہ ایک طرف عزم استحکام کی مخالفت کرتا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کا خاتمہ بھی چاہتا ہے۔

یہاں پشتو کا ایک اور مقولہ یاد آ رہا ہے ‘‘شپیلی وھل اوستوان خوڑل دواڑہ نہ کیگی’’ یعنی ستوپھانکنا اور سیٹیاں بجانا بیک وقت ممکن نہیں۔ فوج سے اگر دہشت گردی کے تدارک کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو آپریشن کی مخالفت چہ معنی دارد؟ یہ تمام معاملات سیاست زدہ ہو چکے ہیں۔ چند جماعتیں سیاسی مفادات کیلئے قومی مفاد اور ملکی سلامتی سے کھلواڑ کر رہی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ ہفتے انہی صفحات پر عرض کیا جا چکا ہے کہ وفاقی حکومت نے عزم استحکام کا شوشہ چھوڑ کر شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبالیا اور طوفان گزرنے کا انتظار کرنے لگی۔

وفاقی ای پیکس کمیٹی میں عزم استحکام کا فیصلہ ہوا تو اس پر مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ عوام میں یہ تاثر سرایت کر گیا کہ عزم استحکام کے نام پر فوج پورے صوبے میں ایک مکمل فوجی آپریشن کرنے جا رہی ہے۔ بنوں واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پی ٹی آئی، پی ٹی ایم، جے یوآئی اور اے این پی نے عزم استحکام کی من پسند تشریح کرکے اس کے خلاف محاذ بنالیا جس کے نتیجے میں بنوں کا واقعہ رونما ہوا۔

وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عزم استحکام کے حوالے سے اعتماد میں لے۔ ابتدا میں وزیر اعظم کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا عندیہ دیا گیا تھا مگر بعدازاں اس پر چپ سادھ لی گئی۔ اب بھی وقت ہے وفاق میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے جس میں عزم استحکام پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ دہشت گردی تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کا مشترکہ مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے محض فوج کافی نہیں۔ وفاقی حکومت نے عزم استحکام کا فیصلہ کرکے خاموشی اختیار کر لی جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس کے ذریعے وضاحت دینی پڑی۔ درحقیقت یہ وفاقی حکومت کا کام تھا جو فوج سے لیا گیا۔

صوبائی حکومت تو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے ہی، اس پر مستزاد یہ کہ وفاقی حکومت کا کردار بھی قابل تعریف نہیں۔ وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور واقعہ کے بعد ای پیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے بنوں کا دورہ کر رہے ہیں تو یہ اقدامات پہلے کیوں نہیں لئے گئے؟ یہ امر افسوس ناک ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں کوئی سانحہ رونما ہونے کا انتظار کرتی ہیں اور پانی سر سے اونچا ہونے پر متحرک ہوجاتی ہیں۔ زمانے میں پنپنے کیلئے یہ ادائیں تباہ کن ہیں۔ صوبائی حکومت کو گورنر کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ختم کرکے امن و امان کے قیام اور وفاق سے معاملات درست ڈگر پر لانے کیلئے ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ گورنر اس سلسلے میں بارہا پیشکش کر چکے ہیں جسے وزیر اعلیٰ پائے حقارت سے ٹھکراتے آرہے ہیں۔

Exit mobile version