محمود اچکزئی کے تحفظات اور وزیر اعلیٰ کا ردعمل
پختونخوا میپ کے سربراہ اور پی ٹی آئی کے اتحادی محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ پارٹی کے غیر منظم طرز سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انقلاب لانے کے لیے ڈسپلن کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ غیر منظم طریقے سے انقلاب نہیں لایا جاسکتا ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ تبدیلی ووٹ کے ذریعے لائی جاسکتی ہے نا کہ نعروں سے۔
اس تقریر کے فوراً بعد خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جو خطاب ” فرمایا” اس نے یقینی طور پر جناب اچکزئی کی یہ خوش فہمی دور کی ہوگی کہ ایک اتحادی کے طور ان کا واسطہ کس مخلوق سے پڑا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے جس انداز میں کارکنوں کا خون گرمانے کے لیے ریاست کو چیلنج کیا اور جس طریقے سے اپنے بانی چیئرمین کو جیل سے نکالنے کا نسخہ بتایا اس پر محمود خان اچکزئی نے دل ہی دل میں نہ صرف مذاق اڑایا ہوگا بلکہ انہوں نے یہ بھی یقینی طور پر سوچا ہوگا کہ وہ کس بھینس کے آگے بین بجانے چل نکلے ہیں۔
محمود خان اچکزئی ایک سنجیدہ نہیں لیڈر کی پہچان رکھتے ہیں اور ان کے مخالفین بھی ان کے طرز سیاست کو سراہتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ مذکورہ پارٹی کو کیا دینا چاہتے ہیں اور اس پارٹی سے کیا لینا چاہتے ہیں ؟ اگر ان کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں پی ٹی آئی کی ” مخلوق” کے ذریعے کچھ حاصل کرسکتے ہیں تو یہ ان کے سیاسی تجربے پر ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ مذکورہ پارٹی کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور محض مفروضوں کی بنیاد پر اس پارٹی سے کسی جمہوری جدوجہد کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ایسا نہ ہو کہ وقتی بہاؤ میں محمود خان اچکزئی بغض معاویہ کے طرزِ عمل میں اپنی برسوں کی جدوجہد کو داؤ پر لگانے کا راستہ اختیار کریں ۔ انہوں نے جس ڈسپلن کی جانب کھلے عام اشارہ کیا اس کا جو حشر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے کیا ہے اس سے جناب اچکزئی سمجھ گئے ہوں گے کہ ان کا واسطہ کن سے پڑا ہے اور وہ کس پارٹی پر ” انویسٹمنٹ” کرنے چل نکلے ہیں۔
— عقیل یوسفزئی