تحریک انصاف کے کارکنوں نے لندن میں پاکستان کی اہم شخصیت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی رسوائی کا سامان کیا۔ اس جماعت کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ کہیں بھی اعلیٰ ملکی شخصیات کیساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، غل غپاڑہ کرتے ہیں اور اپنے اس کارنامے کی ویڈیوز وائرل کرکے اس پر بغلیں بجاتے ہیں اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے وہ سابق چیف جسٹس ہیں جن کے بارے میں کوئی دشمن بھی دعوے سے نہیں کہہ سکتاکہ انہوں نے کبھی آئین کی خلاف ورزی کی ہو، ماورائے آئین کوئی فیصلہ دیا ہو یا کوئی قدم لیا ہو۔ عمران خان نے دوران اقتدار ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو صدارتی ریفرنس بھجوا دیا جو بالکل غلط اور بہتان تراشی پر مبنی اور بے بنیاد ثابت ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنا بھرپور دفاع کیا اور سپریم کورٹ کے پاس ان کی بریت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا۔ وہ پاکستانی تاریخ کے واحد چیف جسٹس تھے جو سپریم کورٹ سے کلیئر ہوکر عہدے پر فائز ہوئے، ان کے کریڈٹ پر ڈھونڈے سے بھی کوئی غیر آئینی اقدام یا آئین سے ماور کوئی فیصلہ نہیں ملتا۔
پی ٹی آئی اور اس کے قائدین نے پہلے تو ان کے خلاف ریفرنس بھجوا کر انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی، پھر انہیں چیف جسٹس بننے سے روکنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا اور اب جبکہ وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے چیف جسٹس بن گئے اور اپنا سنہرا دور گزار کر باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہو گئے تو پی ٹی آئی کو نجانے ان سے کونسی دشمنی یاد آگئی کہ بیرون ملک ان کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔
ان کی قانونی مہارت اور فرض سے لگن کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے معزز قانونی درسگاہ نے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں اپنے ہاں ایک اہم عہدے کیلئے منتخب کیا جو پی ٹی آئی سے برداشت نہ ہوسکا۔ برطانیہ میں ملک کا تماشا بنادیا نہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تضحیک کی گئی بلکہ سفارتخانے کی گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے یہ بدتمیزی اور ہلڑبازی کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل بھی وہ بیرون ملک کئی اہم شخصیات کیساتھ یہ سب کر چکے ہیں۔ مسجد نبویؐ کے احاطے میں سابق وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف بھی اسی قسم کی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے جس کا کوئی فیض تو نہیں ملا۔ سعودی حکومت نے ہلڑبازی میں ملوث کارکنوں کو گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی۔ ان میں سے متعدد کارکن ایسے بھی تھے جو اپنی ماں بہن اور بیوی کا زیور فروخت کرکے مزدوری کی غرض سے سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ان حرکات کے باعث نہ صرف انہیں سزا دی گئی بلکہ ان کا روزگار بھی چھن گیا۔
ان کی تھوڑی سی بیوقوفی اور تحریک انصاف قیادت کی جانب سے دی گئی تربیت کے نتیجے میں کئی افراد کی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی، مگر پارٹی قیادت کو کسی کی زندگی اور موت سے کیا لینا؟ ان کا کام تو خبروں کی زینت بننا اور دوسروں کی ہتک پر بغلیں بجانا ہے۔ برطانیہ میں ان مذموم حرکات کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزا ملنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان نے ملوث افراد کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ انتہائی مستحسن اقدام ہے۔
ملوث افراد کے نہ صرف پاسپورٹس منسوخ ہونے چاہئیں بلکہ انہیں پاکستان میں بلیک لسٹ کیا جائے اور یہ جب بھی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں انہیں گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو شعور کے نام پر بے شعوری اور احمقانہ اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں نمایاں نظر آنے والے ذلفی بخاری اور ملیکہ وغیرہ کو ان اوچھی حرکتوں سے باز رکھنا ضروری ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ ایک ایسے جج تھے اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کا مجسمہ بنا کر چوک میں نصب کیا جاتا۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں کبھی قانون سے ماور کوئی اقدام نہیں لیا، ہمیشہ آئین و قانون کی پاسداری کی۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف نے اپنی دور حکومت میں ان کے ساتھ بہت برا کیا، انہیں تماشا بنا دیا، انہیں ان کی بیوی سمیت عدالتوں کے چکر لگوائے اور ان کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی، مگر چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا۔
ورنہ وہ 9 مئی واقعات کا از خود نوٹس لے کر تحریک انصاف کی کشتی ڈبونے کی طاقت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس جماعت کے خلاف جو انتخابی نشان والا فیصلہ دیا اس کی براہ راست کوریج کروائی اور ایک ایک لمحہ عوام کے سامنے لایا گیا۔ اور ایک ایک نقطے کی ایسی وضاحت کروائی کہ عام آدمی بھی کیس کو سمجھ گیا اور اس میں کوئی ابہام باقی نہ رہا۔ علاوہ ازیں بے پناہ مواقع ایسے آئے کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چاہتے تو تحریک انصاف کے ساتھ تمام حساب بے باق کر سکتے تھے، مگر انہوں نے آبرومندانہ، دانشمندانہ اور مدبرانہ طرز عمل اپنایا اور تحریک انصاف قیادت کی طرح اپنے عہدے کو ذاتی عناد کیلئے استعمال نہیں کیا۔
آئین و قانون کی سربلندی کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی خدمات کو تا ابد یاد رکھا جائے گا، ان کی خدمات قابل رشک ہیں اور کوئی بودے سے بودا شخص بھی ان کی خدمات کو رد نہیں کر سکتا۔ حکومت پاکستان نے ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لے کر اچھا قدم لیا ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک اہم شخصیات کی یوں بے عزتی ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ یہ جماعت اور اس کے قائدین شاید خود کو کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ یہ دوسروں کو بے ایمان اور چور قرار دیتے ہیں مگر خود سب سے بڑے بے ایمان اور چور نکل آتے ہیں۔
انہوں نے تو شہ خانہ کی گھڑیاں اور برتن تک نہیں چھوڑے مگر دوسروں کے خلاف چور چور کے نعرے لگاکر اور لگوا کر خود پاک دامن بنے رہے۔ اس مصنوعی پاک دامنی کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک و قوم کیلئے بے لوث خدمات انجام دینے والی شخصیات کے ساتھ اگر تسلسل سے یہی کچھ ہوتا رہا تو اس ملک اور آئین و قانون سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو ہوگا۔
لندن واقعے میں ملوث افراد کو اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ معاف بھی کر دیں تو ریاست کو معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ کڑی سے کڑی سزا دلوا کر انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو اہم شخصیات کیساتھ بدتمیزی اور ان کی یوں بے توقیری کرنے کی جرات نہ ہو۔
وصال محمد خان