Voice of KP

پختونخواراؤنڈاَپ

New party position of 334 seats in National Assembly after allotment of reserved seats

وصال محمد خان
پوے ملک کی طرح خیبرپختونخوامیں بھی انتخابات کے بعدحکومت سازی کامرحلہ درپیش ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزادامیدوار دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں مگرتاحال کابینہ ارکان اور حکومت سازی کے حوالے سے کوئی واضح لائحہء عمل سامنے نہ آسکا۔بانی پی ٹی آئی نے ڈی آئی خان سے اپنے دورِحکومت کے وزیرامورکشمیروشمالی علاقہ جات علی امین گنڈاپورکووزارت اعلیٰ کیلئے نامزدکیاہے ۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 90 آزاد ارکان صوبائی اسمبلی بالآخرسنی اتحادکونسل میں شامل ہوگئے۔ جواب قانونی طورپر سنی اتحاد کونسل کے ارکان تصورہونگے۔ جس سے تحریک انصاف تیسری مرتبہ صوبے میں حکومت بنانے کاریکارڈقائم کرنے سے محروم ہوگئی ہے اورجوحکومت معر ض وجودمیں آئے گی وہ قانونی طورپرپی ٹی آئی کی نہیں بلکہ سنی اتحادکونسل کی حکومت ہوگی۔ یہ ممبران اندرسے تحریک انصاف کے ہونگے جبکہ بظاہر قانونی طورپرسنی اتحادکونسل کے ارکان شمارہونگے ۔یہ ایک قسم کی ارینج میرج ہے جس میں دلہن ذہنی طورپر اپنے محبوب کے پاس رہے گی جبکہ جسمانی طورپرنئے گھرمیں ہوگی ۔دوتہائی سے زائدآزادارکان ،اسمبلی میں وجود نہ رکھنے والی جماعت میں با جماعت شامل ہوگئے ہیں جوصوبے کی پارلیمانی تاریخ کاانوکھاواقعہ ہے صوبے میں اس سیاسی جماعت کی حکومت ہوگی جس نے عام انتخابات میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کی مگراب وہ نوے نشستوں کی مالک بن چکی ہے۔ اب اگریہ اسمبلی پانچ سال تک چلتی ہے توقانونی اورآئینی طورپراس عرصے میں اسمبلی کے اندر تحریک انصاف کاکوئی وجودنہیں ہوگامگر حکومت اسی کی ہوگی۔اس سے قبل پی ٹی آئی نے اپنے ارکان کی شمولیت کیلئے کئی جماعتوں کیساتھ مذاکرات کئے جن میں وحدت المسلمین، جماعت اسلامی اورپی ٹی آئی پی شامل ہیں جماعت اسلامی کیساتھ مذاکرات تواس سبب ناکام ہوئے کہ جماعت بذات خودمتحرک سیاست کرتی ہے اوراسکااپناآئین ومنشور ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹرینزکے ساتھ مذاکرات بھی ناکام ہوئے حالانکہ پرویز خٹک نہ صرف اپنی بنائی ہوئی جماعت کی قیادت سے دستبردارہوئے بلکہ بنیادی رکنیت کوبھی خیربادکہہ دیاجس سے دونوں پی ٹی آئیزکے درمیان معاملات طے پانے کی خبریں سامنے آئیں مگر نومنتخب ارکان کی اکثریت پرویزخٹک اورمحمودخان کی پارٹی میں شامل ہونے سے انکاری تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اتحادسے تحریک انصاف فائدے میں رہتی ۔مگرنومنتخب ارکان اسمبلی خصوصاًنوشہرہ اورمردان سے تعلق رکھنے والوں نے پرویزخٹک اورمحمودخان کے گناہ معاف کرنے سے انکارکیا ان کامؤقف تھا کہ دونوں نے پارٹی کی پیٹھ میں چھراگھونپا ہے ۔دونوں جماعتوں کے درمیان موجودخلیج کے باعث اتحاد کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔پی ٹی آئی کے نامزدوزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور نے انتظامی معاملات میں مداخلت شروع کردی ہے نوشہرہ کے بڑے ہسپتال قاضی حسین احمدمیڈ یکل کمپلیکس میں پرویزخٹک نے من مانی تقرریاں کررکھی تھیں۔ جن سے تحریک انصاف کے نومنتخب ارکان اسمبلی نالاں تھے۔ اسلئے نگران حکومت نے مذکورہ ہسپتال کے بورڈآف گورنرز کوتحلیل کرکے اسے براہ راست محکمہ صحت کی نگرانی میں دے دیاہے ۔مبینہ طورپریہ فیصلہ علی امین گنڈاپور نے کروایا۔ دیگراسمبلیوں کی طرح خیبرپختونخوااسمبلی کااجلاس بھی 29فروری تک منعقدہوناہے گورنرغلام علی 26فروری تک نجی مصروفیات کے سبب صوبے سے باہرہیں اسلئے یہ اجلاس اب 26فروری کے بعدکسی بھی وقت طلب کیاجاسکتاہے ۔علی امین گنڈاپورکی نامزدگی سے صوبے میں یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ وفاق اورصوبے کے تعلقات میں کشیدگی کاعنصرنمایاں ہوگا ۔خیبرپختونخواچونکہ پہلے ہی مالی بحران سے دوچارہے اوربسااوقات ملازمین کی تنخواہیں دینے کیلئے حکومت کے پاس رقم موجودنہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے بیشتروقت عمران خان کی مدح سرائی میں گزاردیااگراس وقت کی وفاقی اورصوبائی حکومتیں ذمہ داری کامظاہرہ کرتیں تووفاق سے صوبے کے واجبات واگزارکرائے جاسکتے تھے کیونکہ دونوں جگہ ایک ہی پارٹی کی حکومت تھی مگران دونوں حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں تھا۔توقع کی جارہی تھی کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی ایسی حکومت بنتی جووفاق کیساتھ بہترتعلقات قائم کرتی مگربدقسمتی سے ایسانہ ہوسکااورجوحکومتیں بننے جارہی ہیں ان کے درمیان تصادم کاخدشہ نظراندازنہیں جاسکتا۔ پی ٹی آئی چیئرمین گوہرخان اور وزارت عظمیٰ کے نامزد امیدوارعمرایوب نے پشاورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ جب حکومت ملے گی تووہ تحریک انصاف کے گرفتار کارکنوں اورراہنماؤں کی رہائی کے احکامات جاری کرینگے ۔ان راہنماؤں کے بیانات سے تحریک انصاف کی ترجیحات واضح ہورہی ہیں انکی ترجیح عوامی اورملکی مسائل کاحل نہیں اورنہ ہی انکے پاس اس حوالے سے کوئی پروگرام ہے بس اقتدارمیں آکر9مئی کے ملزمان کورہاکرواناانکی ترجیح ہے یعنی عدالتوں کاکام بھی خودسنبھا لنے کاارادہ ہے۔ جہاں تک نامزدوزیراعلیٰ، علی امین گنداپورکاتعلق ہے توانہوں نے ایک ترجیحی لسٹ جاری کی ہے جس کے مطابق حکومت تشکیل پانے کے بعدلنگرخانے اورصحت کارڈدوبارہ شروع کئے جائیں گے ،امن وامان کی صورتحال بہتربنائی جائیگی اوروفاق سے اپنے واجبات اگرنہ ملے توچھینے جائیں گے۔سپیکراسمبلی کیلئے پی ٹی آئی راہنماؤں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے سپیکرمشتاق غنی دوسری مدت کیلئے عہدے پرفائزرہنا چاہتے ہیں جبکہ اسدقیصرنے عمران خان سے ملاقات کرکے سپیکرشپ اپنے بھائی عاقب اللہ کیلئے حاصل کرلی ہے ۔صوبے کوایک سال بعد اسمبلی ملی ہے جبکہ تیرہ ماہ بعدمنتخب حکومت ملنے جارہی ہے ۔وفاق میں نئی حکومت بننے کے بعدگورنرغلام علی کی رخصتی بھی یقینی ہے وفاق میں پاورشیئرنگ فارمولے کے تحت خیبرپختونخواکے گورنرکا تعلق پیپلزپارٹی سے ہوگا جس کیلئے موجودہ صوبائی صدر محمدعلی شاہ ،سابق صوبائی صدورظاہر شاہ اورہمایوں خان سمیت امجدآفریدی اورفیصل کریم کنڈی کے نام لئے جارہے ہیں ۔اے این پی نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جس تحریک کااعلان کیاتھااس کے تحت تاحال صوابی اور چارسدہ میں احتجاجی جلسوں کاانعقادکیاگیا ہے جس سے خطاب کے دوران صوبائی صدرایمل ولی خان،امیرحیدرہو تی اوردیگرقائدین کا کہناتھا۔کہ انتخابی دھاندلی کے ذریعے ان کا مینڈیٹ چرایاگیاہے جس کی واپسی تک تحریک جاری رہے گی ۔ صوبائی اسمبلی سے جن جماعتو ں کاصفایاہوا ہے ان میں آفتاب شیرپاؤکی قومی وطن پار ٹی ،پاکستان تحریک انصاف اورجماعت اسلامی شامل ہیں ۔جبکہ اے این پی کوایک اورپی ٹی آئی پی کودو نشستیں ملی ہیں ۔جے یوآئی اورمسلم لیگ ن کی سات سات نشستیں ہیں قائدایوان کے باقاعدہ انتخاب پراپوزیشن لیڈر کیلئے دونوں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنے کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے ۔ اپوزیشن لیڈرکوچونکہ صوبائی وزیرکے مساوی مراعات حاصل ہوتی ہیں اسلئے جے یوآئی اکرم درانی کوجبکہ ن لیگ اپنے رکن کواپوزیشن لیڈربنوانے کی خواہاں ہے ۔اکرم درانی 2008ء سے2013ء اور2018سے 2023تک عہدے پرفائزرہ چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی ،اے این پی اور پی ٹی آئی پی کے7 ارکان جس پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے وہی اپوزیشن لیڈرہوگا۔

Exit mobile version