Voice of KP

عزم استحکام پرسیاست

OPERATION AMZE ISTEHKAM AND POLITICS

وصال محمدخان
عزم استحکام پرسیاست
کون نہیں جانتاکہ پاکستان کواس وقت شدیدقسم کی دہشت گردی کاسامناہے افغانستان میں بیٹھے شدت پسندگروہ پاکستان میں سیکیورٹی فورسزغیرملکی انجینئرز اورمعصوم عوام کاخون بہانے پرکمربستہ ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسزانکے خصوصی نشانے پرہیں ایک دن پولیس کو نشانہ بناکرخون کی ہولی کھیلی جاتی ہے تودوسرے دن فوجی کانوائے پرپشت سے وارکیاجاتاہے اس سے اگلے دن کسی مسجد،بازار،ہسپتال، یاسکول کونشانہ بنایاجاتاہے۔ ان شرپسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی فورسزطویل عرصے سے حالت جنگ میں ہیں۔

امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعدانکی بزدلانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اب یہ پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں پرکام کرنے والے چینی انجینئرزکوبھی نشانہ بناتے ہیں جس سے پاکستان کونہ صرف اقتصادی طورپرنقصان اٹھاناپڑتاہے بلکہ چین جیسے دوست ملک کیساتھ تعلقات بھی خراب ہونے کاخدشہ ہے۔ چین جو پاکستان کے ہرآڑے وقت کاساتھی ہے وہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں دلچسپی رکھتاہے اوراسکی خواہش ہے کہ پاکستان بین الاقوامی ساہوکار وں کے چنگل سے نکلے ۔اس سلسلے میں اس نے پاکستان کے اندران گنت منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مگریہ شرپسندچینی شہریوں کونشانہ بناکراقتصادی تعاون کی راہ میں روڑے اٹکانے اورپاک چین دوستانہ تعلقات خراب کرنے جیسے مذموم عزائم پرعمل پیراہیں ۔وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین میں امن وامان کی صورتحال بہتربنانے کیلئے تجاویزکاتبادلہ ہوا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف بھی پاکستان میں استحکام کاخواہاں ہے کیونکہ اسکی جانب سے جاری قرض پروگرام پرپاکستان نے بہتراندازمیں عمل کیاہے اوراقتصادی ماہرین کاخیال ہے کہ اگرپاکستان انہی معاشی اصلاحات پرکار بندرہاتوکوئی بعیدنہیں کہ وہ بدترین معاشی حالات پرقابوپانے میں کامیاب ہو ۔مگردوسری جانب سیاسی عدم استحکام شدت پسندی اور دہشتگردی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستانی قوم دنیامیں سراٹھاکرجیناچاہتی ہے اوربیرونی قرضوں سے نجات چاہتی ہے۔ مگران مقاصدکی حصول کیلئے سیاسی استحکام اورامن وامان کاقیام ناگزیرہے اس ضرورت کااحساس کرتے ہوئے حکومت اورریاست پاکستان نے‘‘ عزم استحکام’’ کے نام سے ایک آپریشن شروع کرنے کافیصلہ کیاہے یہ فیصلہ جس اجلاس میں ہوااس میں وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزادکشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،آرمی چیف اورسروسزچیفس نے شرکت کی اوریہ فیصلہ ان تمام ذمہ داروں کی منظوری کے بعدکیاگیا ۔ جس پرکچھ نام نہادسیاسی حلقے اپنی دوکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

تحریک انصاف کاالمیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی اچھے عمل کی مخالفت کواپنافرض سمجھتی ہے اسکی غیرسنجیدگی سے پارٹی اندرونی طورپرٹوٹ پھوٹ کاشکارہے جس سے توجہ ہٹانے کیلئے نان ایشوزکوایشوزبنایاجارہاہے۔ پاکستانی کہلانے والاایسا کون شخص ہوگا جو پاکستان میں شدت پسندی اوردہشتگر دی کاخاتمہ نہیں چاہتاہوگا تحریک انصاف نامی نام نہادسیاسی جماعت کے دورِحکومت میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشنزکاسلسلہ جاری وساری رہا۔ جس میں پاک فوج کے جوان اپنی مقدس سرزمین پرقربان ہوتے رہے گزشتہ عیدالاضحی کے موقع پرشدت پسندوں کے بزدلانہ حملے میں سات فوجی جوان وافسران وطن پرقربان ہوگئے جن میں سے ایک جوان کی دوہفتے بعدشادی تھی کیایہ جوان کہیں آسمان سے گرے ہیں ؟یہ پاکستانی نہیں ؟ یہ اسی مٹی کے فرزندنہیں؟ اگریہ پاکستانی ہیں توانکے خون کابدلہ ریاست پاکستان پرفرض یاقرض نہیں؟ ایک طرف سیکورٹی فورسز، فوج ،پولیس کے جوان وافسران اورملک کے معصوم شہری نشانہ بنائے جارہے ہیں تودوسری جانب ملکی اقتصادیات کوتباہ کیاجارہاہے جوکسی بھی ایٹمی ریاست کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

ان شرپسندعناصرکی سرکوبی پاک فوج کیلئے چنداں مشکل نہیں اوریہ ثابت بھی کیاجاچکا ہے مگرسیاستدان کبھی ایک توکبھی دوسری سیاسی مجبوری کے تحت فوج کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کچھ نہیں بن پڑتاتوانتہائی حساس نوعیت کے معاملے کوسیاسی بیان بازیوں اورسوشل میڈیا ٹرینڈزکا یندھن بنادیاجاتاہے۔

مولانافضل الرحمان اورشاندانہ گلزاراسمبلی تقاریرمیں ایک جانب دہشت گردی کارونارورہے ہیں دوسرے ہی لمحے آپریشن کی مخالفت کردیتے ہیں جس کیلئے انکے پاس کوئی معقول دلیل نہیں سوائے قصے کہانیوں اورجوش خطابت کے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوگاتومولاناپرحملہ کرنے والوں اورباجوڑمیں انکے اسی سے زائدکارکنوں کوآگ وخون میں نہلانے والوں سے حساب کیسے لیاجائیگا؟ کوئی متبادل تجویزتوسامنے لائیں خطابت کے جوش میں سب کچھ روندڈالناکہاں کی سیاست ہے ؟سوشل میڈیاپرٹرینڈزسے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ جیسے فوج اپنے لاؤلشکر، ٹینکوں اورتوپ وتفنگ کے ذریعے خیبرپختونخواپرحملہ آورہوگی اوریہاں عام شہریوں کاخون بہے گاحالانکہ ایساکچھ نہیں۔ عزم استحکام جیسا کہ نام سے ظاہرہے یہ استحکام کیلئے نظرآنے والے اقدامات کاایک منصوبہ ہے جس کامقصد انتہاپسندی ،دہشت گردی سے نجات اورسیاسی استحکام ہے۔ جوعناصراپنی سیاست عزم استحکام پرچمکارہے ہیں وہ عاقبت نااندیشی کامظاہرہ کررہے ہیں اورجانے انجانے میں دشمن قوتوں کاآلہ کاربن رہے ہیں۔

غیرسنجیدہ اورلاابالی سیاستدان ملکی سلامتی کیساتھ کھلواڑکرنے کی بجائے عزم استحکام میں حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ملک وقوم کودہشت گردی ،غربت ،ناانصافی اوربدامنی سے نجات ملے ۔سیاست کیلئے دیگرایشوزکی کمی نہیں سیاسی قیادت کوغیرسنجیدگی سے پیچھاچھڑاکرعزم استحکام پرمتفق ہوناچاہئے ۔ایسانہ ہونے کی صورت میں بھی استحکام کاعمل جاری رہے گامگرانکی غیرسنجید گی اورموقع پرستی عیاں ہوگی ۔عزم استحکام وطن عزیزکی ضرورت ہے، اس میں تاخیرملکی سلامتی کیلئے خطرناک ہے، عزم استحکام پرسیاست قومی سلامتی کیساتھ کھلواڑکے مترادف ہے۔اس سے گریزاوراجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔

Exit mobile version