مجوزہ آئینی ترامیم
گزشتہ اتوار کو اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔ ان تمام سیاسی سرگرمیوں کا محور مولانا فضل الرحمان رہے۔ اپوزیشن اور حکومتی وفود مولانا کے گھر آتے جاتے رہے اور جس طرح نائن الیون کے بعد پاکستانی ائیرپورٹس پر کسی غیرملکی سربراہ کا جہاز اترتا تو کسی کا ٹیک آف کیلئے تیار ہوتا اور دوسرے سربراہان مملکت انتظار میں بیٹھے یا کھڑے ہوتے، بالکل اسی طرح مولانا فضل الرحمان کے گھر اپوزیشن کا وفد ملاقات کر رہا ہوتا تو حکومتی وفد انتظار میں رہتا کہ کب شرف بازیابی ہو یا اگر حکومتی وفد اندر بیٹھا ہوتا تو اپوزیشن وفد گھر جا کر صوفے خالی ہونے کا انتظار کرتا رہتا۔
یہ سارا میلہ اس لئے سجایا گیا کہ حکومت آئین میں ترامیم کا ایک پیکیج لانا چاہتی تھی جس میں عدالتی اصلاحات مقصود تھیں۔ اس سے قطع نظر کہ سیاسی میدان میں کیا ہوا اور یہ ترامیم پارلیمنٹ میں کیوں پیش نہ ہو سکیں؟ ترامیم کا جو مسودہ اخبارات کی زینت بنا ہے یا سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو قباحت والی کوئی بات نہیں بلکہ یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کی جانب اہم قدم تھا جو انا کی بھینٹ چڑھ کر ناکام ہوا۔
ملک میں آئینی عدالت کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ پر آئینی مقدمات کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ آئینی معاملات چونکہ فوری توجہ طلب ہوتے ہیں اس لئے سالہاسال پرانے مقدمات کو کاز لسٹ میں جگہ نہیں ملتی جبکہ آئینی معاملات پر لگاتار سماعت کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے اگر ملک میں ایک آئینی عدالت قائم ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حکومتی مجوزہ مسودے کے مطابق ‘‘آئین کے آرٹیکل 78 میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے متوازی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جس کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا، آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر قومی اسمبلی کی 8 رکنی کمیٹی کی سفارشات پر کیا جائے گا، یہ کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو نامزد کرے گی، نامزد کردہ نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھیجیں گے، آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، جبکہ پہلی مرتبہ آئینی عدالت کے ججز کا تقرر صدر مملکت آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔
آئینی عدالت کی افادیت سے ملک کا کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا، اس لئے مجوزہ ترامیم میں اس عدالت کے قیام اور ججز سمیت چیف کی تقرری کیلئے بہترین طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے اور اسے اگر مزید بہتر بنانے کیلئے کوئی جماعت ترمیم پیش کرنا چاہتی ہے تو اس کی پذیرائی ہونی چاہئے۔ مگر اسے صرف اس لئے مسترد کرنا اور اس پر واویلا مچانا کہ یہ ترامیم حکومت کی جانب سے آئی ہیں یہ دانشمندانہ اور جمہوریت پسندانہ روئیے نہیں۔
ملک میں ہمیشہ عدالتوں اور حکومت کے درمیان چپقلش رہتی ہے۔ کوئی سیاستدان اس آس پہ رہتا ہے کہ فلاں جج چیف جسٹس بنے گا تو اس کی مرضی کے مطابق فیصلے کرے گا اور حکومت کا تختہ الٹا دے گا، تو کوئی یہ آس لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ فلاں جج کو اختیارات ملیں گے تو وہ اس کی سیاست کا سہارا بنے گا۔ یہ روئیے جمہوری نہیں، ان رویوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوریت پسند نہیں بلکہ اقتدار پسند ہیں۔
دنیا میں جمہوریت کو اس لئے پذیرائی ملی تھی کہ یہ اقتدار کی منتقلی کا ایک پرامن ذریعہ ثابت ہوا تھا، مگر یہاں سازشوں کے ذریعے ججوں کو ساتھ ملا کر حکومتوں کے تختے الٹائے جاتے ہیں۔ وزرائے اعظم کو معمولی باتوں پر نااہل کیا جاتا ہے اور انہیں بلاوجہ گھر بھیجا جاتا ہے جس سے ایک سیاسی جماعت کو تو فائدہ مل جاتا ہے مگر نظام میں ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جنہیں مدتوں پر کرنا ممکن نہیں رہتا۔
عمران خان سپریم کورٹ کے جج منصور علی شاہ سے امید وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ وہ چیف جسٹس بنیں گے تو ان کی مشکلات ومسائل کا خاتمہ ہوگا حالانکہ ان کے مشکلات ومسائل کسی عدالت یا حکومت کے پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے جس کے سبب آج وہ جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ کیا کرے؟ انہوں نے اگر اپنی مشکلات کا حل جسٹس منصور علی شاہ کو سمجھ لیا ہے تو جسٹس منصور علی شاہ کو واشگاف الفاظ میں ان سے بریت کا اظہار کرنا چاہئے۔
جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی میٹنگ کا جو راز فاش کیا تھا وہ بات سب کو یاد ہے ‘‘کہ عمران خان نے کہا کہ فلاں جج چیف جسٹس بنے گا تو وہ نواز شریف کو رخصت کر کے ان کے اقتدار کیلئے راہ ہموار کرے گا’’۔ آج بھی صورتحال وہی ہے، عمران خان ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے ایک جج سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ حکومت اگر ان کے منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ اس کا حق ہے کیونکہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کے بڑے بھائی کی اچھی بھلی چلتی حکومت محض ایک الزام پر بلیک ڈکشنری سے الفاظ ڈھونڈ ڈھانڈ کر رخصت کی جا چکی ہے جس کے بد اثرات سے پاکستان تاحال نبردآزما ہے۔
اب اگر شہباز شریف اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے سے خود کو محفوظ رہنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ یہ جو چائے کی پیالی میں طوفان سے مشابہہ مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کی روک تھام بہت ہی آسان ہے۔ متوقع چیف جسٹس واشگاف الفاظ میں کسی بھی سیاسی جماعت سے بریت کا اعلان کریں اور تمام فیصلے آئین وقانون کے مطابق کرنے کا عزم ظاہر کریں تو ان سے وابستہ توقعات خود بخود دم توڑ جائیں گی۔
وہ اگر چیف جسٹس بنتے ہیں اور کوئی ایسا حکم صادر کیا جاتا ہے جس سے حکومت کی رخصتی کا خدشہ ہو تو ان کے فیصلے پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں ملک ایک مرتبہ پھر آئینی بحران سے دوچار ہوگا اور دنیا میں تماشا بنے گا۔
ان تمام بحرانوں سے بچنے کا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ آئینی عدالت قائم ہو۔ اگر سپریم کورٹ کا کوئی جج کسی کو فیور کریں جس کے اشارے دئے جا رہے ہیں تو آئینی عدالت اس کی روک تھام کرے۔ دوسرا وہی طریقہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کسی کا آلہ کار بننے کی سختی سے تردید کر دیں۔ انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنے بہترین کیرئر اور نیک نامی کو ایک سیاسی جماعت کیلئے داؤ پر لگائیں؟
حکومت اگرچہ من پسند آئینی ترامیم لانے میں ناکام ہو چکی ہے مگر یہ سمجھ لینا بھی غلط ہوگا کہ وہ آسانی سے کسی جج کے ہاتھوں رخصتی قبول کرے، خصوصاً اس صورت میں جب اس جج سے عمران خان واضح انداز میں توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہوں۔ آئین میں مجوزہ ترامیم کا جو مسودہ سامنے آیا ہے اس پر تمام سیاسی قوتوں کا اتفاق ضروری ہے، اس سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور ملک مضبوط ہوں گے۔
وصال محمد خان