عقیل یوسفزئی
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اگر ایک طرف 9 مئی کے واقعات کے باعث ریاستی اداروں کے دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری جانب پارٹی اندرونی طور پر مختلف نوعیت کے شدید اختلافات اور گروپ بندیوں کی صورتحال سے دوچار ہے جس نے اس پارٹی کے مستقبل کو مشکوک بنادیا ہے. پارٹی کے بانی عمران خان جب سے جیل گئے ہیں اپنی پارٹی پر گرفت کمزور پڑ گئی ہے اور لگ یہ رہا ہے اس پارٹی کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے. جس انداز میں عمران خان نے پوری پارٹی کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے اس پارٹی کو اپنی ذاتی ملکیت بناکر رکھا تھا اس رویہ کے یہی نتائج نکلنے تھے. ان کی گرفتاری کے بعد ان کی ایک نئی پالیسی یہ سامنے آئی کہ انہوں نے وکلاء کو پارٹی میں غیر معمولی اہمیت دینی شروع کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن کارکنوں اور لیڈروں نے برسوں محنت کی تھی وہ مایوس ہوگئے. پارٹی کو دوسرا مسئلہ یہ درپیش رہا کہ 9 مئی کی شرپسندی کے نتیجے میں جن عہدیداروں کے نام نامزد تھے ان میں سے اکثریت نے روپوشی یا مفروری اختیار کی جس کے باعث کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی اور لیڈرشپ، ورکرز میں رابطہ کٹ کر رہ گیا. اس کے باوجود کہ پارٹی کو عام لوگوں میں اب بھی کافی مقبولیت حاصل ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 9 مئی کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور اب اس پارٹی کو ایک ایسے گروہ کے طور پر لیا جاتا ہے جو کہ ریاست اور سیاست کے علاوہ معاشرت کے لیے بھی ایک خطرہ بنا ہوا ہے. اس پارٹی کو ایک پرتشدد سیاسی گروہ کے طور پر لیا جارہا ہے.
پارٹی کو دوسرا دھچکہ اس وقت لگا جب عمران خان کی اہلیہ اور بہنوں کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات پیدا ہوگئے اور گزشتہ دنوں جیل کے دورے کے موقع پر فریقین کے درمیان نہ صرف بدمزگی پیدا ہوگئی بلکہ ایک سینئر وکیل اور عمران خان کی اہلیہ کی ایک آڈیو لیک ہوئی جس نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنادیا.
ایک اور ڈرامہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب قایمقام چیئرمین کے نام کے لیے مختلف گروپوں نے شورشرابہ شروع کیا میڈیا پر عجیب و غریب دعوے کئے گئے اور بعض “امیدواروں” نے نہ صرف ایک دوسرے پر الزامات لگائے بلکہ ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا. جہاں تک انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے ایک طے شدہ طریقہ کار کے برعکس فارمولا اپنایا گیا جس پر قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں. اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی واقعتاً ایک مشکل دور اور حالات سے دوچار ہیں اور اس صورتحال نے ایک مقبول سیاسی جماعت کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا ہے.