Voice of KP

خیبر پختون خوا کے وسائل، معاشی مسائل اور گورننس

challenges-and-actions-needed-by-the-pakistani-state-and-society

عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں، ماہرین معاشیات، صحافیوں اور دانشوروں نے صوبے میں موجود لامحدود قدرتی وسائل کو قدرت کی طرف سے غنیمت سمجھتے ہوئے ان وسائل کو جنگ زدہ صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ صوبوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق اور وسائل دیے جائیں.
پشاور پریس کلب میں سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شمس مومند کی کتاب “پختون خوا کے وسائل” کی تقریب رونمائی کے موقع پر صوبے کی نمایندہ شخصیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختون خوا کے وسائل لامحدود ہیں تاہم یہ قدرتی وسائل اور اس کی جغرافیائی اہمیت ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنےکی وجہ بھی ہیں اور جاری بدامنی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے. جن اہم افراد نے اس موقع پر تقریب سے خطاب کیا ان میں اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما بحراللہ ایڈووکیٹ، ترجمان جے یو آئی جلیل جان، قومی وطن پارٹی کے سینئر رہنما ہاشم بابر، سابق صوبائی وزیر سردار حسین بابک،سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر آختر علی شاہ سینئر صحافی فرزانہ علی، ماہر معاشیات یاسین اقبال یوسفزئی، نامور اداکار عجب گل، نامور شاعر اباسین یوسفزئی اور بخت روان عمر خیل شامل تھے.
میاں افتخار حسین نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ ماضی میں جب ہمارے قایدین صوبوں کے حقوق کی بات کرتے تھے تو ان کو نہ صرف غدار کہا جاتا رہا بلکہ ان کو بعض قوتوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا. ان کے مطابق یہ بات خوش آئند ہے کہ اب تقریباً تمام سیاسی جماعتیں صوبوں کو آئین میں درج ان کے حقوق کے تحفظ اور فراہمی پر متفق ہیں اور اسی نکتے سے پاکستان کی وفاقی یونٹس کو استحکام ملے گا. دہشتگردی کی جاری لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات اور فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے.
جلیل جان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ صوبوں خصوصاً پختون خوا کو ان کے جایز حقوق دیئے جائیں اور اس ضمن میں ایم ایم اے کی سابق حکومت نے بعض دیگر اقدامات کے علاوہ بجلی کے خالص منافع میں اضافے کا راستہ بھی ہموار کیا تاہم تحریک انصاف کی دو صوبائی حکومتوں نے صوبے کے حقوق داو پر لگادیے جس سے بہت نقصان ہوا. بحراللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ صوبہ پختون خوا کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے.
سردار حسین بابک کے مطابق صوبہ پختون خوا میں بدامنی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سب کی نظریں پشتون بیلٹ میں موجود وسائل پر ہیں.
ڈاکٹر اختر علی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ملک اور صوبے کی تعمیر و ترقی پر مصالحتی اور دفاعی رویہ کی بجائے کھل کر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس سے پاکستان بھی مضبوط ہوگا.
فرزانہ علی کے مطابق صوبے کو بدامنی کے علاوہ بیڈ گورننس اور اقتصادی مسائل کا بھی سامنا ہے. اب مہاجرین کی واپسی اور نئے انتخابات نے بھی ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کی ہے جس سے نمٹنے کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.
شمس مومند نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وسائل اور مسائل کی اعداد و شمار کی صورت میں سامنے لانا ان کی ذمہ داری تھی اب ان حقوق کی وصولی اور آئین کے مطابق صوبے کے مفادات کا تحفظ کرنا سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے. عجب گل نے کہا کہ ہمیں قدرت نے جن قدرتی اور افرادی وسائل سے نوازا ہے ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اور طبقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. اس موقع پر مہمانوں اور شرکاء نے شمس مومند کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ صحافیوں اور دانشوروں کو اس طرح کا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ عوام کو درست معلومات فراہم کی جائیں.

Exit mobile version