Voice of KP

فوج کے خلاف بیان بازی

Rhetoric against the military

وصال محمدخان
فوج کے خلاف بیان بازی
یہ امرانتہائی افسوسناک ہے کہ دورِحاضرمیں ہماری سیاست فوج کے گرد گھوم رہی ہے خودساختہ انقلابی ہرچھوٹابڑاسیاستدان فوج کیخلاف
منہ سے جھاگ اڑاتاہوانظرآتاہے ۔اس نارواروش کاآغاز گزشتہ دوبرسوں سے تحریک انصاف نے کیاہے اب آہستہ آہستہ ایمل ولی،مولا نافضل الرحمان،اسدقیصراوردیگربھی اس کاحصہ بن چکے ہیں ۔عمران خان توکافی پہلے سے اپنی سیاست فوج ہی کے نام پرچمکارہے ہیں۔ مگرگزشتہ عام انتخابات میں ناکامی کے بعدایمل ولی خان اورمولانافضل الرحمان نے بھی فوج کو نشانے پررکھ لیاہے ان دونوں کی جماعتیں پی ٹی آئی کے ہاتھوں نقصان اٹھاچکی ہیں۔اے این پی جوگزشتہ ستربرسوں سے صوبے کی ایک مضبوط سیاسی قوت تھی پختون بیلٹ میں اس کامضبوط ووٹ بنک موجودتھاوہ قیام پاکستان سے قبل اوربعد میں آٹھ مرتبہ صوبائی حکومتوں کاحصہ رہ چکی ہے مگرگزشتہ تین انتخابات سے اسکی کارکردگی روبہ زوال ہے2008ء انتخابات میں چالیس سے زائدصوبائی اوردس قومی نشستیں حاصل کرنیوالی اے این پی کے پاس صوبا ئی اسمبلی میں واحد نشست پشاورسے حیدرہوتی دورکے وزیرارباب ایوب جان مرحوم کے بیٹے ارباب عثمان نے حاصل کی ہے ۔2018ء انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی اگرچہ اس معیارکی نہیں تھی مگراسکے پاس صوبائی اسمبلی میں دس اورقومی اسمبلی میں حیدرہو تی کی واحد نشست موجودتھی ۔ گزشتہ انتخابات میں اے این پی کی ناقص کارکرد گی سے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی حالت بھی پتلی ہے اور یہ اجلاس ریکوزٹ کرنیکی سکت بھی نہیں رکھتی ۔ اے این پی اس صوبے کی ہرلحاظ سے بہترین سیاسی جماعت ہے وہ دہشت گردی کے خلاف دوٹوک مؤقف رکھتی ہے، تعلیم پرتوجہ کے اعتبار سے اس کاگزشتہ دورِحکومت مثالی رہا ،اسکے پاس سمجھداراورقابل افرادکی ٹیم موجودہے ،وہ قربانیوں کی طویل تاریخ رکھتی ہے مگرصوبے میں اس کاووٹ بنک سکڑچکاہے۔مولانافضل الرحمان کے والدمفتی محمودصوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ 2002ء انتخابات میں ایم ایم اے پلیٹ فارم سے اکرم درانی وزیراعلیٰ بنے اسکے بعدگزشتہ تین انتخابات میں اسے وہ پوزیشن حاصل نہ ہو سکی یہ صوبائی اسمبلی میں دس بارہ اورقومی اسمبلی میں پانچ سات نشستوں تک محدودہوچکی ہے 2002ء انتخابات کے سواوہ صوبائی اسمبلی کی قابل ذکر قوت کبھی نہیں رہی۔ گزشتہ تین انتخابات میں اسے بھی اے این پی کی طرح پی ٹی آئی نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔دونوں شکست خوردہ جماعتیں ببا نگ دہل اپنی شکست کیلئے فوج کوذمہ دارٹھہرارہی ہیں ۔عمران خان چونکہ فوج کے خلاف بیانات کااستعمال کرکے مقبولیت سمیٹنے کے دعویدارہیں جس کے پیش نظر ان دونوں جماعتوں نے بھی یہی روش اپنائی حالانکہ انکے پاس انتخابات میں فوج کی مداخل ت یانتایج تبدیل کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت موجودنہیں دونوں محض سیاسی بیان بازی کی حدتک دھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں جبکہ اس حوالے سے کسی متعلقہ فورم پر کوئی ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا ۔مولاناصاحب سمجھتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے پریس کانفرنس میں انہیں مخاطب کیا ۔انہوں نے9مئی کوپشاور میں خطاب کے دوران فوج کوسقوط ڈھاکہ کے طعنے بھی دئے مولانافضل الرحمان جیسے مدبراورجہاں دیدہ سیاستدان سے اس طرز گفتگوکی توقع نہیں تھی ۔ایک توجوسانحہ گزرچکاہے وہ قومی تاریخ کاسیاہ باب ہے اس میں فوجیوں سمیت سیاس تدا نوں کاکرداربھی نظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ اِدھرہم ،ادھرتم کانعرہ فوج کانہیں تھا۔قومو ں کی زندگی میں آنیوالے سانحات کیلئے کسی ایک فردیاادارے کوذمہ دارنہیں ٹھہرایاجاسکتا مولاناپرآجکل فوج کے خلاف بیان بازی میں عمران خان کوپیچھے چھوڑنے کی دھن سوارہے ورنہ وہ فوج کے خلاف جس قسم کی گفتگوکررہے ہیں یہ ان جیسے سیاستدان کاخاصہ نہیں۔ اگروہ فوج کوسیاست سے بے دخل کرناچاہتے ہیں یاعوامی راج لاناچاہتے ہیں یہ امورپارلیمنٹ کے ذریعے ہی انجام دئے جاسکتے ہیں دوچار سال قبل انہوں نے پراسرارطور پرجودھرناختم کیاتھااور مبہم اندازمیں جس جانب یقین دہانی کے اشارے کئے تھے آج ان پر فوج کوسیاست سے کنارہ کش کرنیکاخبط سوارہو چکا ہے حالانکہ جنرل باجوہ سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کااعلان کرچکے ہیں اگرواقعی بقول مولانا فوج سیاست میں مداخلت کررہی ہے تووہ مطلوبہ ذرائع کوبروئے کارلاسکتے ہیں وہی ذرائع جنہو ں نے ان سے اسلام آبادمیں پی ڈی ایم کادھرناختم کروایاتھا۔ درحقیقت یہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ فوج کے خلاف بیان بازی نے ان کاووٹ بنک چھینا ہے انہوں نے ٹھان لیا ہے کہ وہ بھی اپناکھویاوقاراسی طریقے پرچل کرحاصل کرینگی۔حالانکہ ان دونوں کے پاس سیاست کیلئے فوج کے خلاف بیانئے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے تحریک انصاف کے پروپیگنڈے نے ووٹ بنک چھین کرانکے اوسان خطاکردئے ہیں اوراب یہ خواس باختگی کے عالم میں ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہیں دونوں جماعتوں کو فوج کے خلاف بیانئے بنانے کی بجائے سیاست کے جدیدطریقے اپنانے چاہئیں پی ٹی آئی کوئی کارکردگی نہ ہونے کے باوجودپروپیگنڈ ے کے بل بوتے دونوں کوپچھا ڑچکی ہے۔ دونوں آپس میں اتحادکامظاہرہ کریں سیاسی احیاء کیلئے پی ٹی آئی کے طریقے ضروراپنائیں انکے ٹارگٹ کواپناٹارگٹ نہ بنائیں دونوں جماعتوں کوادرا ک ہے کہ پی ٹی آئی نے ان کاووٹ بنک چھیناہے اب فوج کے خلاف محاذپریہ دونو ں اسی کے آلہ ء کار بن رہی ہیں اگرجے یو آئی کواپنی جماعت کی مقبولیت کا اتناہی زعم ہے توضمنی انتخابات میں حصہ لیکر ثابت کیاجاتاکہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔باجوڑضمنی الیکشن میں دونوں کی نچلے نمبر کیلئے بھی فوج کوذمہ دار ٹھہرایاجائیگا؟درحقیقت دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے ہاتھوں اپناووٹ بنک کھوچکی ہیں انہیں کھویاہوامقام حاصل کرنے کیلئے غوروفکراور اپنی پالسیوں پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔فوج کویوں بیان بازیوں کانشانہ بناناملک وقوم کے مفادمیں نہیں بلکہ یہ روش ملکی سلامتی کیلئے زہرقاتل ہے۔

Exit mobile version