Voice of KP

پگڑیوں کا فٹبال

Wisal Muhammad Khan

وصال محمد خان
وطن عزیزکی فضاپر ہمہ وقت ارتعاش کی کیفیت طاری رہنامعمول بن چکاہے کوئی دن پرسکون گزرتاہے تویہ کسی بڑی آفت کاپیش خیمہ ثابت ہوتاہے۔ دنیاکے دیگرخطوں اورممالک میں الیکشن کے دوران گہماگہمی رہتی ہے، جلسے جلوس منعقدہوتے ہیں اورایکدوسرے کے خلاف بیانات جاری ہوتے ہیں مگرہمارے ہاں الیکشن کے بعد اگلے پانچ سال تک بھی انتخابی ماحول برقراررہتا ہے. سیاسی بیان بازی پرکیاموقوف اب عدلیہ کے خلاف بیان بازی کی ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کا کرداربھی قابل رشک قرارنہیں دیاجاسکتا مگراسے سیاسی بیان بازیوں کانشانہ بنانابھی کسی طورمستحسن نہیں۔ عدلیہ ریاست کے چارستونوں میں سے ایک ہے اوربرطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کاقول توسب کوازبرہے کہ جس ملک میں انصاف ہوتاہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مگربدقسمتی سے پاکستان کاریکارڈ اس حوالے سے قابل رشک نہیں اسلئے توہماری عدلیہ دنیامیں ایک سوچالیسیویں نمبرپرہے ملک کے چونکہ تمام شعبے تباہ حالی کا شکارہیں جس سے عدلیہ بھی محفوظ نہیں عدلیہ سے متعلق چند افرادنے ماضی اورحال میں ایسے فیصلے دئے ہیں جن سے متاثرہ افرادیاتوزمین کے چھ گزاندر دفن ہوگئے یاپھرزمین سے چھ گزاوپرلٹک گئے ۔عدلیہ کے فیصلوں پرمتاثرہ فریق اکثروبیشترتنقیدکرتے رہتے ہیں مگر حالیہ عرصے میں کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جوچاروں جانب سے تنقیدکی زدمیں ہیں خصوساًتحریک انصاف اوراسکے بانی کے حوالے سے 9مئی واقعات پرجوتھوک کے حساب سے ایک ایک فردکودو،دو،درجن مقدمات میں ضمانتیں دی گئیں یاپھرماضی قریب میں گڈٹوسی یو وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ان پرمخالف فریقوں کی جانب سے تنقیدنوشتہ دیوارتھی ۔اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ ججزکی جانب سے سپریم کورٹ کوانکے امورمیں مداخلت کے حوالے سے جوخط لکھاگیااسکے بعدعدلیہ اورمقتدرحلقوں میں ٹھن گئی ہے اسلام آبادہائیکورٹ کے جج بابرستارجوکہ مستقل جج بھی نہیں انکی جانب سے پی ٹی آئی کے حق میں کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن پرمخالف فریق کاسیخ پاہوناقدر تی امرہے۔ اوپرسے انہوں نے سپریم کورٹ کوخط لکھ کرایک نیاایشوچھیڑدیااس خط کاجونتیجہ برآمدہواہے یہی متوقع تھااول تویہ خط لکھناہی غلط سمجھاجارہا ہے اگرخط لکھابھی گیاتوسپریم کورٹ کواس پرازخودنوٹس لینے کی بجائے یہ معاملہ حکومت کوسونپناچاہئے تھااوراگرہائیکورٹ کے چھ ججزکوکسی مداخلت کاسامناتھاتووہ حکومت سے ہی رابطہ کرسکتے تھے مگرانہوں نے معقول طرزعمل اپنانے کی بجائے یہ خط میڈیاکوجاری کردیاخط شائد سپریم کورٹ یاسپریم جوڈیشل کونسل بعدمیں پہنچامگرمیڈیامیں اس پرتبصرے پہلے ہی شروع ہوگئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم کے درمیان یک رکنی کمیشن بنانے پراتفاق ہوامگرمیڈیامیں ایک سیاسی جماعت کے شورمچانے اورازخودنوٹس کے مطا لبات سے متاثر ہوکرچیف جسٹس اوروزیراعظم کے درمیان ہونے والے فیصلے کوبالائے طاق رکھ کرسوموٹولیاگیااسکے بعدیہ شورمچایاگیاکہ کیس کی سماعت فل کورٹ کرے اس مطالبے کوبھی مستردنہیں کیاگیا۔عدلیہ کوسیاست میں مداخلت یاکسی فریق کیلئے جانبداری کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے، کسی کے پروپیگنڈے سے متاثرنہیں ہوناچاہئے اورکسی کے دباؤمیں ٓنے سے اجتناب برتناچاہئے ۔مگرحالیہ عرصے میں عدلیہ کی جانب سے یہ بنیادی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ بعض ججزتوببانگ دہل ایک سیاسی جماعت کوفیورکرتے رہے حتیٰ کہ یہ ججزاعلیٰ مناصب پربھی فائزرہے کسی نے اپنے منصب سے ناجائزفوائدسمیٹ کردولت بنائی ،کسی کے بیٹے پر پیسے بنانے اوروالدکے منصب سے ناجائزفائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آئے، کسی جج کومحسوس ہواکہ وہ اپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہینگے توجوابدہی کی بجائے استعفیٰ دیکرمحفوظ راستہ اپنایا،کسی نے چیف جسٹس بننے کی بجائے استعفیٰ کوترجیح دی اوراستعفیٰ دیکرانکے گناہ دھل گئے ۔شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فیصلہ دینے والے اوران کاکیرئیرتباہ کرنے والے بھی جج تھے اورانہیں بغیر خدمت انجام دئے پنشن کاحقداربھی ججزنے ہی ٹھہرادیااگرماضی میں انہیں ججزنے مس کنڈکٹ کامرتکب قراردیکرملازمت سے برخاست کیاتھاتواس میں قوم وملک کاکیاقصورکہ انہیں ادا ئیگیاں قومی خزانے سے ہوں اورانہیں وہ تنخواہ بھی اداکی جائے جس کے عوض انہوں نے خدمات ہی انجام نہیں دیں۔اخلاقی طورپریہ ادائیگیاں ان ججزکے ذاتی اکاؤنٹس سے ہونی چاہئے جنہوں نے انہیں غلط طورپرمس کنڈکٹ کامرتکب قراردیاتھا۔حال ہی میں ایک جج پردہری شہریت کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں انہیں اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت اسکے بیانئے یاپروپیگنڈے کاشکارہونے کی بجائے دہری شہریت ترک کردینی چاہئے ۔خودپرلگے سیاسی چھاپ کامداواکرناچاہئے اورذمہ دارانہ طرزعمل اپناناچاہئے۔اگروہ ایسانہیں کرتے تولوگ تنقیدبھی کریں گے ،انگلیاں بھی اٹھیں گی اورانہیں سیاسی بیان بازیوں کانشانہ بھی بنایاجائیگا۔ سیاسی بیان بازوں کے چنگل سے نکل کرججزکواپنے کوڈآف کنڈکٹ پرعمل پیرارہناچاہئے ،کسی سیاسی راہنماسے متاثرنہیں ہوناچاہئے اورانکے فیصلوں سے یہ تاثرنہیں ابھرنا چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یاراہنماسے متاثرہیں۔سیاست میں چونکہ پگڑیاں اچھالنامعمول بن چکاہے اسلئے سیاستدانوں نے عدلیہ کے حوالے سے بھی پگڑیوں سے فٹ بال وغیرہ کھیلنے کی باتیں کیں یہ ایک نارواطرزعمل ہے اسکی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے ۔کسی کے بارے میں کچھ بھی کہنے ،دھمکانے یاکوئی بھی لغوالزام لگانے کاسلسلہ اب بندہوناچاہئے ۔اسی طرح کی گفتگوپی ٹی آئی ترجمان اورراہنما بھی کر چکے ہیں اسلام آبادہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس کے بارے میں ٹاؤٹ جیسے الفاظ استعمال ہوچکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کویاتو اس معاملے پرمعافی تلافی اورصلہ رحمی سے کام لیکردیگرضروری امورپرتوجہ مرکوزرکھنی چاہئے یاپھرماضی قریب میں اس سے بدترطرزگفتگوکابھی محاسبہ کرناچاہئے ۔زیادہ بہترتویہ ہوتاکہ ججز زبردستی عزت کروانے کی بجائے اپنے طرزعمل سے خودکوتکریم کے قابل بنادیتے یہاں ہردوسر ی زبان توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے ۔نظام انصاف میں خامیوں اوردیگران گنت عوامل کے پیش نظرعدلیہ کاوقارخاصامجروح ہوا ہے فوج کے بعدعدلیہ کوبھی سیاست زدہ کرنیکی کوششیں ہورہی ہیں۔جوکسی طوردرست طرزعمل نہیں۔ سیاستدان عدلیہ کوسیاست میں ملوث نہ کریں اورعدلیہ خودسے سیاست میں ملوث نہ ہو۔سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ پگڑیاں بہت اچھالی گئیں۔ممبرپارلیمنٹ کوذمہ دارانہ طرزگفتگوزیب دیتی ہے بازاری گفتگوسے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے ۔

Exit mobile version