Voice of KP

عزم استحکام کے بارے میں وضاحت

Azme Istehkam عزم استحکام

عزم استحکام کے بارے میں وضاحت

وصال محمد خان

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں متعدد ایسے حقائق کی نقاب کشائی ہوئی جو گزشتہ کچھ عرصے سے وضاحت طلب تھیں۔ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ سامنے آنے پر کچھ سیاسی قوتیں سیاست چمکانے میں مصروف ہوگئیں۔ پی ٹی آئی، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور اے این پی اس کی مخالفت میں پیش پیش رہیں۔

آپریشن کے حوالے سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ شائد پاک فوج اٹک پار سے خیبرپختونخوا پر حملہ آور ہوگی، اسے ٹینکوں، جنگی گاڑیوں، فضائیہ اور گائیڈڈ میزائلوں کا ساتھ حاصل ہوگا، پورے صوبے پر کارپٹ بمباری کی جائے گی اور پورا صوبہ غزہ کی طرح ملیا میٹ کردیا جائے گا۔ پی ٹی آئی بالخصوص اور دیگر جماعتیں بالعموم فوج کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنانے میں مصروف ر ہیں۔

عزم استحکام کے جو خدوخال سامنے آئے تھے اور ذمہ داروں کی جانب سے اس کی جو وضاحتیں مختلف ذرائع سے سامنے آئی تھیں ان میں کہیں بھی ایسا کوئی آپریشن زیر غور نہیں تھا جس سے صوبے کے کسی بھی حصے پر بمباری یا توپ و تفنگ کے استعمال کا خدشہ ہو۔ عزم استحکام کے بارے میں اپنی معلومات کی بنیاد پر راقم درجن بھر تحریروں میں واضح کرچکا ہے کہ عزم استحکام کوئی ملٹری آپریشن نہیں اور اس کے تحت اگر ملٹری آپریشن مقصود بھی ہو تو یہ ممکن حد تک محدود ہوگی۔ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز تو گزشتہ دو عشروں سے جاری ہیں۔

درمیان میں ملاکنڈ، جنوبی و شمالی وزیرستان وغیرہ میں مکمل فوجی آپریشنز بھی کرنے پڑے جہاں اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ ملاکنڈ میں اگر فوجی آپریشن نہ کیا جاتا تو کیا اس علاقے اور عوام کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جاتا؟ اسی طرح دیگر علاقوں کے آپریشنز بھی ناگزیر ہوگئے تھے اور اس کے بغیر چارہ نہیں تھا مگر یہ آپریشنز فوج نے اپنے تئیں نہیں بلکہ سیاسی قیادت اور جمہوری حکومتوں کی ایماء پر کئے۔ ان آپریشنز میں عوام کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی خاصا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اپنے ہی ملک میں کوئی فوجی کارروائی ہمیشہ حکومت اور فوج دونوں کیلئے خاصا مشکل فیصلہ ہوتا ہے مگر اسے چار و ناچار قبول کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ ہونے والے تمام فوجی آپریشنز جمہوری حکومتوں اور سیاسی راہنماؤں کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد کئے گئے۔ اب بھی اگر اسی طرح کے آپریشنز مقصود ہوں تو تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی کئے جائیں گے۔ رہے ٹارگٹڈ اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز تو یہ عرصہ دراز سے جاری ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق رواں برس 22 ہزار 4 سو 9 ایسے آپریشنز کئے گئے جس میں 31 انتہائی مطلوب دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ان آپریشنز میں 137 فوجی جوان و افسران نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ آپریشنز پر سیاست چمکانے والے اور من گھڑت تشریح کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف دلیری سے لڑنے والے اور جام شہادت نوش کرنے والے اسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں، اسی مٹی کے فرزند ہیں اور اسی ملک اور عوام کی حفاظت کیلئے جانیں قربان کررہے ہیں۔

فوج اگر آپریشن نہ کرے تو دہشت گردوں کو کون اور کیسے روکے گا؟ اور ان شہداء کا بدلہ کیسے لیا جائے گا؟ اس پریس کانفرنس سے جہاں دیگر بہت سے عوامل کی نشاندہی ہوئی وہاں اس حوالے سے سیاسی حکومتوں کی کوتاہی بھی سامنے آئی۔ خیبرپختونخوا میں انسداد دہشت گردی کی ناکافی عدالتوں کا بھی تذکرہ ہوا۔

دہشت گردی سے متاثرہ صوبے میں اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ ایک جانب دہشت گردی کو فوج کا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے، دوسری جانب آپریشن کا ہوا بنا لیا گیا ہے۔ فوج دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے آپریشن نہیں کرے گی تو کیا دہشت گردوں پر ہیلی کاپٹروں سے گل پاشی کرے گی؟ جس قسم کی آپریشن کا ای پیکس کمیٹی میں فیصلہ ہوا ہے یہ آپریشن وقت کی ضرورت ہے۔ عزم استحکام کے بغیر ملک میں استحکام ممکن نہیں۔

سیاسی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ہے اس پر سیاست بازی سے گریز کیا جائے۔ سیاست کیلئے ایشوز کی کمی نہیں، یہ وقت ہے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دہشت گردی کی عفریت کا مقابلہ کرنے کا نہ کہ فوج کا مورال گرایا جائے، فوج کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے، سوشل میڈیا ٹرینڈز چلائے جائیں اور قومی سلامتی سے متعلق معاملات کو سیاست بازی کی نذر کیا جائے۔

سیاسی جماعتوں کو بالغ نظری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ 32 ہزار مدارس میں سے صرف 16 ہزار رجسٹرڈ ہیں باقی مدارس میں طلبہ اور اساتذہ کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کون چلا رہا ہے، وہاں کون پڑھ رہا ہے، کون پڑھا رہا ہے، کیا پڑھا رہا ہے اور وہاں کن افراد کی رہائش ہے؟

عزم استحکام کا مقصد جرائم اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو توڑنا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی گاڑیاں ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں اس کا سدباب کرنا ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں پر سمگلنگ کا خاتمہ کرنا ہے جو ملکی معیشت کو دیمک بن کر چاٹ رہا ہے۔ سمگلنگ سے کمائی گئی رقم اسی ملک میں عوام کے خلاف دہشت گردی کی صورت استعمال ہورہی ہے۔ یعنی اسی ملک سے ناجائز طریقے سے دولت کما کر اسی ملک میں دہشت گردی کیلئے استعمال کی جارہی ہے جس کا تدارک وقت کی ضرورت ہے۔

اگر اس تدارک کیلئے کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو سیاسی جماعتیں اس کے خلاف محاذ کھڑا کر دیتی ہیں۔ سیاست بازی کیلئے ملکی مفاد اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگانا کہاں کی اور کون سی سیاست ہے؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں، بے نامی جائیدادیں اور بے نامی اکاؤنٹس کا سدباب ہونا چاہئے، اس سے اغراض برتنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا۔

عزم استحکام کے تحت نہ صرف ٹارگٹڈ فوجی آپریشنز کئے جائیں گے جو پہلے سے جاری ہیں بلکہ ملکی استحکام کیلئے تمام ضروری اقدامات لئے جائیں گے جس میں تمام سیاسی قوتوں، حکومت، عوام اور فوج کی تعاون درکار ہوگی اور ان تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ عزم استحکام کے بارے میں ڈی آئی ایس پی آر کی وضاحت قابل قدر ہے۔ سیاسی قوتوں کو حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر سیاست بازی سے گریز کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: عزم استحکام پرسیاست

Exit mobile version