Voice of KP

پشاور یونیورسٹی میں ایمرجنسی ریسپانس مینجمنٹ ٹریننگ اور سمولیشن کا آغاز

Initiation of Emergency Response Management Training and Simulation at University of Peshawar

ٹریننگ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر سی ڈی پی ایم پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے کہا کہ دو روزہ ٹریننگ کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو ایمرجنسی ریسپانس مینجمنٹ کے  ضروری مہارتوں اور علم سے آراستہ کرنا ہے تاکہ وہ کسی ہنگامی صورتحال کے دوران موثر انداز میں رسپانس دے سکیں۔ہمارا مقصد ہنگامی تیاری کی اہمیت کے بارے میں عوامی بیداری کو بڑھانا، ہنگامی حالات کے لیے تیاری، کمیونٹیز کی صلاحیت کو بڑھانا، ممکنہ خطرات اور مؤثر ردعمل کے بارے میں معلومات فراہم کر کے کمیونٹیز کی حفاظت کو فروغ دینا ہے۔  ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر علی نے کہا کہ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزررہی ہے اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے-گلوبل وارمنگ کے کرہِ ارض پر پڑنے والے منفی اثرات سے لوگ بلکل بے خبر ہیں- اس تناظر میں یہ بہت ضروری ھے کہ نوجوان نسل کو افات کی روکھ تھام، ایمرجنسی منیجمنٹ اور ماحولیاتی تبدیلی کیلیے موافقت کے بارے میں بتایا جایۓ- ڈاکٹر علی نے سالانہ بنیادوں پر سی ڈی پی ایم میں باقاعدہ تربیت کا انعقاد کرنے پرایمرجنسی ریسکیو سروسز 1122 کا شکریہ ادا کیا۔

ریسکیو1122 کے ماسٹر ٹرینر جناب عنایت الرحمان نے کہا کہ افراد اور کمیونٹیز کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری معلومات اور مہارتوں سے آراستہ کر کے، ہم یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی ایمرجنسی میں ممکنہ طور پر جانیں بچا سکتے ہے۔  جناب خلیل الرحمان، ماسٹر ٹرینر ریسکیو 1122 نے کہا کہ سی ڈی پی ایم اور ریسکیو 1122 کی طرف سے پیش کردہ ایمرجنسی ریسپانس ٹریننگ پروگرام شرکاء کے مختلف شعبوں بشمول ابتدائی طبی امداد، ہنگامی مواصلات، آفات کی تیاری، انخلاء کے طریقہ کار، ریسکیو، فائر فائٹنگ، کرائسز منیجمنٹ، اور انسیڈنٹ کمانڈ سسٹم کے  عملی مہارت فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ہنگامی حالات کے لیے تیاری جانوں کی تحفظ، ساختی ڈھانچے کی حفاظت، صحت عامہ کو برقرار رکھنے، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے، معاشی نقصانات کو کم کرنے، اور کمیونٹی کی ریزیلیس کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ فعال اقدامات اٹھا کر، ہم بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق معاشرے پر ممکنہ منفی اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔

ٹریننگ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مشتاق احمد جان نے اپنے تاثرات میں کہا کہ آج کی غیر متوقع دنیا میں خطرات کم کرنے اور ہنگامی حالات کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔  پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کا شکار ہیں- ماحولیتی تبدیلی کے دور میں تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر نوجوان تیاری کے کلچرکو فروغ دینے، جان و مال کے نقصان کو روکنے، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، لوگوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو ان چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے نوجوان لوگوں کو دیرپا ترقی اور سماجی و ماحولیاتی انصاف میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں-

ابتدائی ہینڈ آن ٹریننگ کے بعد، یوتھ کلب کے ممبران کو کل یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس میں ایمرجنسی رسپانس سمولیشن کا انعقاد کرنا ہوگا۔

Exit mobile version