کراچی اور ملک کے بعض دیگر علاقوں کی طرح خیبرپختونخوا بھی شدید بارشوں کے نتیجے میں غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر عوام اور حکومت نے اس صورتحال میں ذمہ داری، تعاون اور احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا تو 2010 کی طرح پختونخوا کے متعدد علاقے بری طرح متاثر ہو جائیں گے اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے سوات، دریائے پنجگوڑہ، اور دریائے کابل میں حالیہ غیر معمولی بارشوں سے تقریباً 33 مقامات پر سیلاب کی صورتحال بن چکی ہے جبکہ ہزارہ ڈویژن کے مانسہرہ، حویلیاں، بٹگرام اور بعض دیگر علاقے دریائے سندھ اور بعض مقامی ندیوں کے باعث متاثر ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چترال، دیر، سوات، بونیر، چارسدہ اور نوشہرہ میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کے مطابق حکومتی ادارے نہ صرف صورتحال اور نقصانات سے باخبر ہیں بلکہ امدادی کاروائیاں، لوگوں کی منتقلی اور عارضی آبادکاری کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔
متعلقہ محکموں کے مطابق منگل کی شام کو سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر 50 ہزار کیوسک پانی جبکہ چکدرہ کے مقام پر اُسی شام 75000 کیوسک پانی گزر رہا تھا ۔ یہ کافی پریشان کن بہاؤ ہے جس کے باعث خدشہ ہے کہ جب پانی کا اتنا بڑا بہاؤ یا ریلا دریائے کابل میں شامل ہو گا تو اس سے وادی پشاور کے بعض اہم علاقے بُری طرح متاثر ہوں گے۔ ان علاقوں میں چارسدہ اور نوشہرہ بھی شامل ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہر دوسرے تیسرے سال سیلاب آ جاتا ہے مگر عوام اور متعلقہ حکومتی ادارے مسلسل سیلابوں اور نقصانات کے باوجود احتیاط اور ذمہ داری سے کام نہیں لیتے۔ 2019 کے دوران چترال میں بدترین سیلاب آیا جس نے چترال کے علاوہ دیر اور نوشہرہ کے بعض علاقوں کو بھی متاثر کیا۔ اس سے قبل سوات میں 2010 کے دوران تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف تقریباً 70 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین پانی میں بہہ گئی۔ سینکڑوں عمارتیں دریا کی نذر ہوگئے اور تقریباً 80 پل پانی میں بہہ گئے اس کے بعد ایک سروے کرایا گیا جس کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے اسباب کا جائزہ لیا گیا اور ان کے سدباب کے لئے قوانین بنائے گئے ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ غیر معمولی بارشوں کے علاوہ دریاؤں کے کنارے بنی عمارتیں اور تجاوزات ہی وہ بنیادی عوامل یا اسباب ہیں جن کے باعث ایسے سیلاب آتے ہیں اور نقصانات پر قابو نہیں پایا جاتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ سال دو ہزار دس کے سوات سیلاب کے باوجود لوگوں نے نہ صرف انہی جگہوں پر پھر سے ہوٹل، دوکان اور گھر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جہاںسیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا تھا بلکہ کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے نے ان تعمیرات اور قوانین کی خلاف ورزی کا نوٹس بھی نہیں لیا ۔ بحرین سوات میں ایک تاریخی ہوٹل کو متعدد دیگر کی طرح 2010 کا سیلاب بہا کر لے گیا تھا مگر چند برس بعد اسی جگہ پر حکومت کی ناک کے نیچے ایک بڑی مسجد بنائی گئی جبکہ متعدد دیگر مقامات پر بھی عمارتیں کھڑی کی گئی۔
جاری سیلاب یہی عمارتیں پھر سے بہا کر لے گیا ہے یا بعض کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ بحرین ،مدین ، خوازاخیلہ یہاں تک کہ مرکزی شہر مینگورہ میں بھی عام لوگوں کے علاوہ ہوٹل مالکان نے نہ صرف ہوٹل بنائے رکھے ہیں بلکہ انہوں نے بدترین تجاوزات کی شکل میں دریا کی زمین پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بارشیں بڑھتی ہیں تو پانی کے لیے روٹین کے مطابق اپنے لیے راستہ نکالنا پڑتا ہے مگر ان رکاوٹوں کے باعث اس کو درکار جگہ نہیں ملتی اور پھر ہمیں بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورتحال دیر ،چترال اور دریائے کابل میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ عوام اور لینڈ مافیا کے کارندے دریاؤں کے کنارے عمارتیں ہوٹل اور گھر تعمیر کر کے کسی قانون یا طریقہ کار کو خاطر میں نہیں لاتے۔
سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا تیسرا بڑا سبب بالائی علاقوں میں جنگلات کے کی بے دریغ کٹائی بھی ہے۔ اس کام میں بھی بڑے طاقتور مافیاز ملوث ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کے بعد پہاڑوں میں موجود مٹی اور ریت زیادہ بارشوں کی صورت میں ندیوں کے ذریعہ دریاؤں میں گر جاتی ہے جس کے باعث پانی کی سطح اوپر چلی جاتی ہے اور وہ بےقابو ہو جاتا ہے۔ سردست ضرورت اس بات کی ہے کہ حالیہ سیلاب کے نقصانات کا ہنگامی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور غیر قانونی تعمیرات اور ٹمبر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔
AWKUM ranked Top among Pakistani Universities
Abdul Wali Khan University Mardan (AWKUM), University of Khyber Pakhtunkhwa (KPK), ranked first among the Pakistani Universities according to the list issued by the Times Higher Education World University Ranking 2021.
World body examined seventeen Universities of Pakistan and AWKUM declared top in country and 510th at world level in terms of research and citation. Earlier, Quaid.e.Azam University, Islamabad was holding the first position in the ranking among the Universities of Pakistan.
On this Occasion, AWKUM Vice Chancellor Prof. Dr Zahoor-ul-Haq said that “It is an honor that the Univer¬sity has 300 PhDs, the largest numbers of doc-torate degree holders in the province.” He added that even in terms of funds allocated for research, the AWKUM remained on top in KP. He said that the winning of top position had encouraged the university’s faculty and administration. The AWKUM vice-chancellor asked the PhDs of the university to play a role in improving the quality of education.
AWKUM was established in April 2009, in Mardan KPK named after the great Pashtoon leader Abdul Wali Khan. The university started in an already-built postgraduate college of Mardan, has several campuses and more than ten thousand students enrolled in different disciplines.
Currently the university has six faculties and three constituent colleges. The faculties are Faculty of Arts & Humanities, Faculty of Chemical and Life Sciences, Faculty of Physical & Numerical Sciences, Faculty of Economics & Business, Faculty of Social Sciences, Faculty Agriculture.
It is the biggest higher education institute for the students of Swabi, Charsadda, Nowsehra, Mardan, Swat, Shangla, Buner, Dir, Chitral, Northern Punjab, Kohat, Southern parts of Khyber Pakhtunkhwa, and the extensive Tribal region along the boundaries of the Province.
The university has several campuses at different places in KPK offering different disciplines: Main Campus, Garden Campus, Pabbi Campus, Palosa Campus, Riffat Mahal Campus, Shankar Campus, Timergara Campus.
Each campus has digital library where students issue books with the digital machine which issues the books through library cards moreover there is an e-books support programmer that allows researchers to access most of the important text and reference books electronically in a variety of subject areas. Around 75,000 number of electronic content has been made available through the Digital Library Programme. It also helps researchers to access the international scholarly literature based on electronic (online) delivery, high quality, peer-reviewed journals, databases, articles and e-Books across a wide range of disciplines.
This kind of achievement motivates other Universities of Pakistan to involve and provide such environment to the students and scholars where they can do researches with facilities and can get more prominent names in researches to get the top ranks among the universities of world.