کیڈٹ کالج سپنکئی تعلیم کی فراہمی کے ساتھ وزیرستان میں فلاحی کاموں کا مرکز

دہشت گردی کی جنگ سے سب سے ذیادہ متاثرہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں دو کیڈٹ کالج بنائے گئے اور یہ اعزاز صرف قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کو حاصل ہے کہ جہاں ایک ضلع میں دو کیڈٹ کالج موجود ہیں جس میں ایک کیڈٹ کالج وانا میں تعمیر کیا گیا جبکہ دوسرا کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی میں تعمیر کیا گیا ۔سپنکئی رغزائی کیڈٹ کالج تاحال تعمیراتی مراحل میں ہے لیکن تعمیراتی مرحلہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کیڈٹ کالج سپنکئی نے جنوبی وزیرستان کی سرزمین کو علم کے پانی سے ایسا سیراب کیا کہ اس زمین نے بے شمار ایسے سپوت پیدا کیے جوکہ مختلف شعبوں میں احسن طریقے سے ملک کے لیے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔

کیڈٹ کالج سپنکئی کا قیام سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز اشفاق کیانی کے دست مبارک سے اپریل 2012 میں عمل میں لایا گیا ۔ کالج کی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت نے ایک ارب تیس کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔عسکری قیادت کے بھرپور تعاون سے کالج کی تعمیر وترقی کا کام تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کیڈٹ کالج سپنکئی کے قیام کا بنیادی مقصدبالعموم پاکستان کے نوجوانوں کو اور بالخصوص  جنوبی وزیرستان  کی نوجوان نسل کو  معیاری اور جدید تعلیم سے روشناس کرانا، اعلیٰ تعلیم و تربیت سے ان کی کردار سازی کرنااور پاکستان کو اعلیٰ با کردار اور مخلص قیادت فراہم کرنا ہے۔کالج نے انتہائی کم وقت میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ کالج سے فارغ التحصیل کیڈٹس پاکستان آرمی ، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس میں بطورآفیسر کمیشن لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کیڈٹ کالج سپنکئی کے کیڈٹس پاکستان کے اعلیٰ اور بہترین اداروں جیسےکہ: میڈیکل یونیورسٹی  ، انجینئر نگ یونیورسٹی ، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی اورلاء کالج وغیرہ میں زیر تعلیم ہیں۔

 کالج میں محسود قبائل کو تعلیمی میدان میں آگے لانے کےلئے کوٹہ مختص کیا گیا ہے ۔ لیکن اِس کوٹے میں بھی اُن کیڈٹس کو ترجیح دی جاتی ہےجو وزیرستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ کراچی ، پشاور ، اسلام آباد اور بڑے شہروں میں رہنے والے قبائل کو تمام تر تعلیمی سہولیات میسر ہوتی ہیں جبکہ وزیرستان میں پڑھنے والابچہ اِن جدید تعلیمی سہولیات سے نا آشنا ہوتا ہے اسی لیے مقامی طلباء کو اولین بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے اسکی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ کالج انتظامیہ ان تمام اُمور کو متوازن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

 کالج انتظامیہ نے ذہین اور مستحق کیڈٹس کے لئے خصوصی وظائف (سکالر شپ)دینے کا سلسلہ شروع کیا  ہےجس کا مقصد ذہین اور مستحق کیڈٹس کی مالی معاونت کرنا ہےتاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری رکھ سکیں ۔اس سلسلے میں مخیر حضرات نے کالج انتظامیہ کو بھر پور مدد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

 کرنل محمد طارق سہیل کی بطور پرنسپل کیڈٹ کالج تعیناتی کے بعد کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی ان دنوں نہ صرف تعلیم کی فراہمی کا فریضہ سر انجام دے رہاہے بالکہ کیڈٹ کالج سپنکئی رغزائی مقامی عوام کے لیے ایک ایسی حثیت اختیار کر گیا کہ وہ اپنے مسائل کے حل اور انکو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے عوامی نمائندوں کے دروازے پر دستک دینے کی بجائے کیڈٹ کالج کے دروازے پر دستک دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ کالج انتظامیہ نے پہلی مرتبہ کیڈٹ کالج کے لیے بنائے گئے ایک چھوٹے سے ہسپتال تک مقامی لوگوں کو رسائی دی ۔اس ہسپتال تک مقامی لوگوں کو رسائی دینے کے بعد مقامی لوگ طبعی علاج کے لیے اس ہسپتال کو ترجیح دیتے ہیں ۔کیونکہ ہسپتال صرف کیڈٹ کالج کے سٹاف اور طلباء کو علاج معالجے کے عرض سے بنایا گیا تھا اسی لیی کم وسائل کے باعث ذیادہ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے ہیں ۔حکومت اگر اس چھوٹے سے ہسپتال کو سہولیات فراہم کرے تو یہ چھوٹے سے ہسپتال سے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے ذیادہ مریض مستفید ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ہسپتال ایک منظم نظام کے تحت چل رہا ہے ۔کیڈٹ کالج سپنکئی راغزائی کے پرنسپل کرنل طارق سہیل نےگزشتہ دنوں مقامی صحافیوں کو کیڈٹ کالج کے دورے کے دوران غیر رسمی گفتگوں کے دوران بتایا  کہ ہماری  کوشش ہے کہ ہم  محض کالج کی چار دیواری کے اندرمحدودنہ رہیں بلکہ کالج کی چار دیواری سے باہر بھی ہم جنوبی وزیرستان  اور خصوصاً سپنکئی کے لوگوں کی مختلف شعبوں میں مدد کریں ۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم مقامی لوگوں کو  جدید تعلیم کی فراہمی ، صحت کےشعبے میں ممکنہ سہولیات کی فراہمی  اور معاشی طور پرمقامی لوگوں کو ہر ممکن  مدد  فراہم کریں ۔

جدید تعلیم کا حصول وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیم کےمیدان میں مقامی سکولوں کو جدید تعلیمی تقاضوں سےروشناس کرانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے محکمہ تعلیم کی وساطت سے دومقامی بوائز سکولز اور دو گرلز سکول  کو منظم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ان سکولز میں طلباء و طالبات کی کل تعد اد 400 سے زائد ہے۔ ان سکولوں کے اساتذہ کے لئے ابتدائی طور پر تعلیمی ورکشاپ کا انعقاد ، تعلیمی خامیوں کی نشاندہی جبکہ طلباء کے لئے کتابیں ، یونیفارم  وغیرہ کا بندوبست شامل ہے۔

پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے واضح کیا ہے کہ مقامی لوگوں کی طبی سہولیات کے لئے کالج کا ہسپتال اور طبی عملہ ہر وقت تیارہے ۔ ابتدائی طبی امدادکے لئے مقامی لوگ کسی بھی وقت کالج آسکتے ہیں اور میڈیکل سہولیات سےفائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سپنکئی  کے مقامی لوگ اس سہولت سے استفادہ بھی  حاصل کر  چکے ہیں۔ پرنسپل کیڈٹ کالج سپنکئی نے بتایا کہ اس سے ہمارے کیڈٹس کے طبی اُمور پر کوئی فرق نہیں پڑےگا ہم بیک وقت کیڈٹس اور مقامی لوگوں کو  طبی امدا د دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسکو مسلسل جاری رکھ سکتے ہیں

مقامی لوگوں کے لئےجو سب سے اہم بات پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے بتائی وہ یہاں کے مقامی لوگوں کی معیشت میں مدد فراہم کرنا ہے۔ کالج انتظامیہ کی اولین کوشش ہےکہ کالج میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے ۔ یہی وجہ ہےکہ کالج میں کلاس فور سے لیکر اعلیٰ افسر تک مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیاہے۔ تاکہ یہاں کےلوگ زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں ۔ اس کے علاوہ کالج انتظامیہ کوشش کر رہی ہےکہ جنوبی وزیرستان کے لوگ بڑے شہروں کے بجائے مقامی مارکیٹ اور اپنےلوگوں کو سپورٹ کریں تاکہ مقامی مارکیٹ اور مقامی کاروبار آگے بڑے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں اب یہ شعور اجا گر ہورہاہے ۔ یہاں کے لوگ مقامی مارکیٹ اور کاروبار کو سپورٹ کررہے ہیں  ۔ لوگوں کا پیسہ اور کاروبار اپنی مارکیٹ میں گردش کرنے لگا ہے ۔ جس سے یہاں کے لوگوں کوخاطر خواہ فائدہ مل رہا ہے۔ کالج انتظامیہ نے جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی معاشی شعور کی بیداری میں اپنا بھر پور تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیاہے۔پرنسپل کرنل محمد طارق سہیل نے بتا یا کہ عسکری قیادت اور حکومت جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے لئے کوشاں ہیں ۔پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح جنوبی وزیرستان بھی بہت جلد جدید سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ عسکری قیادت اس حوالے سے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔

کیڈٹ کالج کے پرنسل کرنل طارق کی گفتگو سے یہ اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جنوبی وزیرستان کے طلباء کو بہترین تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہاں کے رہائشیوں کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں ۔ اگر کیڈٹ کالج انتظامیہ  عوام کے لیے وہ فرائض بھی سرانجام دی رہی ہے جوکہ ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے تو اب مقامی کاروباری ،سیاسی، سماجی اور مخیر حضرات کا فرض بنتاہے کہ وہ کیڈٹ کالج انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات کو عوامی سطح پر سراکر نہ صرف کالج انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کریں بالکہ ان عوامی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑکر حصہ لے ۔محکمہ صحت کو بھی چائیے ہیں کہ وہ کیڈٹ کالج کے چھوٹے سے ہسپتال کو وہ تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی تاکہ عوام بہتر انداز میں کالج انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ کیے بغیر اس سے مستفید ہوسکیں ۔محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کو بھی چائیے کہ وہ کریڈٹ کی بیماری سے باہر آکر کالج انتظامیہ سے بھر پور تعاون کریں اور جو چار سکول کالج انتظامیہ نے اپنی نگرانی میں لیئے ہیں اس میں کالج انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ کالج انتظامیہ مزید سکولوں کو بھی اپنی نگرانی میں لینے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے جسکی وجہ سے سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بہتری کی جانب گامزن ہوگا

افغانستان کی بگڑتی صورتحال عالمی میڈیا اور پاکستان

افغانستان کی حالیہ صورتحال اور علاقائی قوتوں کی نئی صف بندی کی سرگرمیوں نے جہاں امن پسند حلقوں کو پیچیدہ مسائل سے دوچار کر دیا ہے وہاں پاکستان کی مشکلات اور عوام کے تحفظات کو بھی بڑھا دیا ہے۔  یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی ناکامی کی صورت میں افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا تاہم اس بات کا اندازہ غالباً کسی کو نہیں تھا کہ طالبان اتنی جلدی پیش قدمی کر لیں گے اور افغان فورسز کی عملی مزاحمت برائے نام یا علامتی ثابت ہوگی۔  شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے علاوہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو بھی جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران یہ کہنا پڑا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی پر ان کو بھی بہت حیرت ہو رہی ہے۔ امریکی اور برطانوی میڈیا نے 12 جولائی کو رپورٹ کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بیس برسوں کے دوران افغان فورسز پر جو اربوں کی سرمایہ کاری کی تھی وہ عام ہتھیاروں سے لیس طالبان جنگجوؤں کے سامنے وہ نتائج نہ دے سکی جس کی امریکہ کو توقع تھی۔  اگرچہ کابل سمیت دوسرے بڑے شہر افغان حکومت کے قبضے میں ہے اور معمولات زندگی پر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے تاہم کابل سے سفارتکاروں،  سرمایہ داروں اور تعلیم یافتہ حلقوں کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور ریکارڈ تعداد میں ہزاروں شہری پاسپورٹ آفسز کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔

بھارت نے قندھار میں اپنی کونسلیٹ بند کر دی ہے جبکہ متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکل آئیں۔ طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک بیان پر ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو چند دنوں میں دوسروں کے علاوہ کابل پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں  تاہم فی الحال ایسا کرنا ان کی حکمت عملی میں شامل نہیں ہے۔  زلمی خلیل زاد بعض اہم ممالک کے دورے پر نکل پڑے ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران کی مصالحتی کوششوں اور رابطہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم طالبان ذرائع نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ کابل حکومت کے ساتھ مصالحت کی اب ان کو نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی خواہش۔

پاکستان کا کردار بعض سیاسی حلقوں اور مخصوص تجزیہ کاروں کے برعکس طالبان کی پیش قدمی کے بعد خاموش نظر آ رہا ہے تاہم اس کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔  اس میں پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر پختونخواہ اور بلوچستان کے ان علاقوں کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جو کہ افغان سرحد کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تاکہ کشیدگی کی صورت میں ماضی والی صورت حال پیدا نہ ہو۔  اگرچہ طالبان رہنما اور ترجمان باربار کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم صورت حال میں کسی بھی وقت کوئی بھی ڈرامائی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔  اس لیے سینٹرل ایشین ریاستوں اور ایران کی طرح پاکستان بھی مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستان میں بلوچستان اور پختونخوا کی سرحدوں کی نگرانی اور سکیورٹی سخت کر دی ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے میں تاحال افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقے طالبان کی یلغار سے محفوظ ہیں اور اب کی بار انہوں نے اپنی کاروائیوں کی شروعات شمالی  اور مرکزی افغانستان سے کی ہیں، پھر بھی پاکستان کے حکام بدلتی صورتحال کے پیش نظر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ماضی والی صورت حال پیدا نہیں ہو گی اگرچہ پاکستان افغان مہاجرین کی متوقع آمد کے بارے میں واضح کر چکا ہے کہ پہلے سے لاکھوں مہاجرین کی موجودگی اور سیکورٹی کے بعض تحفظات کے تناظر میں وہ مزید مہاجرین کو آنے نہیں دے گا تاہم یو این ایچ سی آر کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ وہ متعلقہ پاکستانی اداروں اور حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور خدشہ ہے کہ اگر کشیدگی اور جنگ میں اضافہ ہوا تو 5 سے 10 لاکھ تک مزید مہاجرین پاکستان آ سکتے ہیں۔  ان کے مطابق پاکستان اب کے بار ایسی صورتوں میں متوقع مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔

اگرچہ افغانستان کے موجودہ حالات غیر متوقع نہیں اور اس کی زیادہ ذمہ داری طالبان کے غیر لچکدار رویے اور امریکی افغان حکومتوں کی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔  اس کے باوجود پاکستان کے بعض سیاسی عناصر حقائق کا ادراک کئے بغیر اس کے باوجود پاکستان پر مبینہ مداخلت کے الزامات لگا رہے ہیں کہ عالمی میڈیا کے علاوہ امریکہ کے اندر امریکہ کی افغان پالیسی پر کھل کر ناقدانہ بحث جاری ہے۔  دوسری طرف بعض حلقے اس طرز عمل کو آگے بڑھا کر پاکستان کے میڈیا کو پرو طالبان کہہ کر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ طالبان مسلسل پیش قدمی کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ طالبان کی فتوحات کی زیادہ تر خبریں امریکی میڈیا ہی کے ذریعے سامنے آ رہی ہے۔  ایسی صورتحال میں بعض پاکستان حلقوں کا روایتی طرز عمل نہ صرف طالبان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے بلکہ ان سیاسی حلقوں اور پاکستانی میڈیا کے درمیان بداعتمادی کا بھی اس سے راستہ ہموار ہو سکتا ہے اس لئے احتیاط لازم ہے۔