گزشتہ روز چارسدہ میں مزدور کسان پارٹی کے زیر اہتمام پشتون قومی جرگہ کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے بغیر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے اہم رہنماؤں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت صاحب الرائے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس جرگہ کا مقصد افغانستان، پاکستان اور خطے خصوصاً پشتون بیلٹ کو درپیش صورت حال انتہاپسندی، طالبان کی ری گروپنگ اور دیگر متعلقہ مسائل پر مکالمہ کرنا اور حالات کا جائزہ لینا تھا۔
جن مقررین نے جرگے میں اظہار خیال کیا ان میں آفتاب خان شیرپاؤ، میاں افتخار حسین ،منظور پشتین، ایمل ولی خان، مختار باچا، محسن داوڑ ، سلیم صافی، مختیار یوسفزئی ، حیدر زمان خان، ہمایون خان، شمس مہمند، ساجد حسین اعوان، وگمہ فیروز، مولانا جلال جان، ڈاکٹر مشتاق، عقیل یوسفزئی، حیات روغا نے،شکیل وحیداللہ اورمیزبان افضل خاموش شامل تھے۔ مقررین نے خصوصاً افغانستان کی کشیدہ صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر افغانستان میں جاری کشیدگی اور حملوں کا راستہ نہیں روکا گیا تو اس سے پاکستان خصوصاً پشتون بیلٹ شدید متاثر ہوگا اور علاقائی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ مقررین میں سے اکثر نے طالبان اور ان کے حامی ریاستوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اشرف غنی کی حکومت کو عوام کے مینڈیٹ کا حامل قرار دے کر طالبان کی مخالفت اور مزاحمت کی جبکہ جے یو آئی، جماعت اسلامی اور میڈیا کے نمائندگان نے جاری صورتحال میں فریق بننے کی بجائے ثالثی پر مبنی کردار کی وکالت کرتے ہوئے امریکہ افغان حکومت اور بعض دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی حالات کا ذمہ دار قرار دے کر اپنی تجاویز پیش کیں۔
سیاسی قائدین کا متفقہ خیال یہ تھا کہ پاکستان افغانستان کے امن کے لیے درکار کردار ادا نہیں کر رہا اور الزام لگایا کہ پاکستانی ریاست اب بھی طالبان کی سرپرستی کر رہی ہیں تاہم دوسرے فریق کا موقف تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اشرف غنی کی حکومت کو دوحا پراسیس سے باہر رکھتے ہوئے طالبان کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کیا اور امن قائم کیے بغیر جلدی میں انخلاء کے اقدام نے صورتحال کو پرخطر اور تشویشناک بنا دیا۔ اس موقع پر سیاسی قائدین کا موقف تھا کہ اگر اب کے بار یہ آگ پھیل گئی تو اس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی کی جائے گی جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ جان بوجھ کر پشتونوں کو جنگوں کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ اکثر قائدین نے اشرف غنی کی حکومت کی کھل کر حمایت کی تاہم دوسرے فریق کا نقطہ نظر رہا کہ ماضی کے تجربات جاری پراکسیز کے تناظر میں افغان طالبان کی کھل کر مخالفت کی بجائے مصالحت اور میانہ روی کا راستہ اپنا کر اپنے کارکنوں کو ماضی کی طرح پھر سے خطرے میں ڈالنے کے مجوزہ رویے سے گریز کیا جائے۔ ساتھ میں یہ مشورہ بھی آ گیا کہ تمام اہم پشتون رہنماؤں اور مشران کے ذریعے نہ صرف بعض متعلقہ ریاستوں بلکہ افغان جنگ کے فریقین کو بھی مذاکرات اور مصالحت پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جائے اور الزام تراشی، فریق بننے کی روش سے گریز کیا جائے۔
اس موقع پر کہا گیا کہ پاکستان میں فورسز اور اہم سیاسی کارکنوں، مشران پر ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پھر سے منظم ہو کر حملہ آور ہو گئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاسی قوتوں اور عوام کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ میسنگ پرسنز کے معاملے، علی وزیر کی گرفتاری، قبائلی اضلاع کے استحکام اور ترقی، اٹھارویں ترمیم، سی پیک اور پاک افغان تجارت جیسے مسائل پر بھی بحث کرکے مطالبہ کیا گیا کہ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرکے ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے تاکہ پاکستان کو پر امن بنا کر سب کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔
جرگے کے دوران ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ جرگے میں شریک پارٹیاں امن کے حق میں ڈویژنل لیول پر ریلیاں نکالیں اور افغانستان کے استقلال اور استحکام کے حق میں آواز اٹھائی جائے ۔ تاہم امن ریلیوں یا کسی اور مشترکہ جدوجہد کا کوئی عملی پلان یا فارمولا سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف سابقہ اور حالیہ جرگوں کے تناظر میں مزید جرگے منعقد کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی مگر اس کے لیے بھی کسی ٹھوس فیصلے یا فارمولے کا اعلان نہیں کیا جا سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے اجتماعات مکالمے اور مشاورت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم اس قسم کی سرگرمیوں کی کامیابی اور بہتر نتائج کے لئے لازمی ہے کہ تلخ زمینی حقائق اور چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کسی ایک فریق کی حمایت یا مخالفت کی بجائے مصالحت اور ثالثی کا کردار ادا کیا جائے۔
Bannu’s First-ever woman journalist breaking stereotypes
Pakistan is one of those countries, where women still face many problems in their respective professional fields as well as domestic life.
Women face domestic violence, emotional abuse, forced marriages and sexual harassment; menaces that hinder their participation in mainstream society. Apart from these challenges, women in Pakistan also struggle for access to transportation and jobs in the private and government sector.However, the time is changing and a more conducive environment now is helping Pakistani women excel in even male-dominated fields.
Mehreen Khalid, The first-ever female journalist from Bannu is one such example that is breaking the stereotypes in man dominant field and society. Despite all these serious social and domestic barriers, there are many women fighting against discrimination and are striving to change the horrific norms of the society.
Mehreen Khalid, a young journalist from the Bannu district of KP, defied the odds to pursue a career in journalism – a field which is considered unsuitable for women among her community. She is pursuing a Masters in journalism from Gomal University and working as a voice over artist and reporter in a local digital media organisation.
Mehreen Khalida belongs to a conservative community where women are told to stay at home and do the household chores. She broke stereotypes by pursuing her passion and adopting journalism as career, a field seen as male-dominated in the region. While talking to Voice of KP, Mehreen Khalid said that opting journalism as a field and career for a girl like her was a big challenge as girls in her hometown have never been allowed to colleges even due to the man dominant social structure of society.
Mehreen said that she had a dream to work for the voiceless people since her childhood; saying that accepting all the challenges and threats she took the decision and selected journalism as a field with a hope to help and support those those whose voices were lost. About the attitude of the people towards her she said that many from her hometown and other tribal areas applauded her struggle and step for adopting journalism as a career She said that many in her village have asked her father to stop her from going to university as they considered her as a threat for the other girls of village.
“They think I will encourage and brainwash other girls of the village to go to university or college for education”, said Mehreen. About the family support, she said that her father was the only person who supported her and let her fly instead of clipping her wings. She many relatives pressured her father not to let his daughter get education or adopt Journalism as a career, but he did not bother anyone and kept me supporting until now, Mehreen said.
Mehreen Khalid concluded that she was the only girl in her class and she had concealed this from her family and other relatives, as she feared that it could stop her education in the university.