قومی یکجہتی کا بہترین مظاہرہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور مختلف ایشوز پر قومی قیادت، سیاسی کارکن اور عوام تقسیم بھی ہیں تاہم ایک سرپرائزنگ پوائنٹ تو یہ بھی ہے کہ سب کے سب ملک کی سلامتی استحکام اور ترقی جیسے معاملے پر نہ صرف یہ کہ ایک صفحے پر ہیں بلکہ  پاکستان جب بھی کسی بھی فیلڈ میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو سب ہی تمام تلخیاں اور اختلافات بھلا کر اس پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔گزشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک میچ کے دوران روایتی حریف بھارت کی ٹیم کو جب ایک بڑے مارجن سے شکست دے کر فتح پائی تو مسائل سے دوچار پاکستانیوں کے چہرے اس جیت پر کل اُٹھے اور پشاور سمیت ہر شہر میں شہریوں نے سڑکوں اور گلیوں پر نکل کر اس فتح  پر خوشی کے بھنگڑے ڈالے۔  متعدد شہروں میں من چلوں نے جوش میں آکر ہوائی فائرنگ بھی کی جبکہ رات گئے تک نوجوان سڑکوں پر سیٹیاں بجائے اور گاڑیاں دوڑاتے دیکھے گئے۔

 اس ردِ عمل سے بعض اہم باتوں یا احساسات کی نشاندہی ہوتی ہے۔پہلا تو یہ کہ پاکستان کے عوام نہ صرف یہ کہ اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ یہ خوشی اور غم کی کیفیات میں تمام تر لسانی اور مذہبی اختلافات اور دوریاں ختم اور نظر انداز کرکے ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارے عوام خوشی کے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں جو کہ ان کی زندہ دلی کا ثبوت ہے جبکہ ان کی خواہش رہتی ہے کہ نا مساعد حالات میں بھی کبھی کبھار ان کو جشن منانے کے مواقع ملتے رہیں۔  ایسا ہی رویہ ہم نے متعدد بار جشن آزادی کے موقع اور عیدین کے دور میں بھی دیکھا جب عوام ہر سطح پر ہر جگہ بڑے جوش کے ساتھ نکل کر خوشیاں مناتے ہیں۔تیسرا یہ کہ اس قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے اور معاشی ،سیاسی بحران ان کے اس جذبے کو متاثر یا ختم نہیں کرسکتے۔  شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ چند برس قبل پاکستانیوں کو سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوم قرار دیا گیا تھا۔

حالیہ فتح پر جہاں عام شہریوں اور کرکٹ کے شائقین نے خوشی کا اظہار کیا وہاں یہ عرصہ دراز کے بعد غالباً پہلا ایسا موقع تھا جب ملک کے تمام سیاسی ،مذہبی، سماجی اور عسکری قائدین نے بیک زبان ہو کر اپنی ٹیم اور قوم کو مبارکباد دی اور خلاف توقع اجتماعی طور پر ایسا کوئی بیان یا رد عمل سامنے نہیں آیا جس سے منفی تاثر لیا جا سکتا ہو۔ہمارے کھلاڑیوں نے بھی دوران مقابلہ ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے یہ تاثر پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہوتا کہ وہ بھارت کو پاکستان کا دشمن سمجھ کر کھیلے ہیں یہ ایک میچور ٹیم کا سنجیدہ رویہ تھا جس کو سراہا جانا چاہیے۔

 اگرچہ اس جیت پر پورے ملک میں جشن منایا گیا تاہم خلاف توقع جس جذبے کے ساتھ خیبرپختونخوا اور مقبوضہ، آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں عوام نے جذباتی پن دکھا کر اظہار مسرت کیا وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ردعمل تھا ۔ بعض حلقے یہ تاثر دیتے تھکتے نہیں کہ خیبر پختونخوا کے عوام ناراض یا بیزار ہیں تاہم ایسے مواقع پر جب عملی طور پر وہ سڑکوں اور گلیوں میں نکل آتے ہیں تو اصل حقیقت کسی اور شکل میں سامنے آ جاتی ہے۔صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں نوجوانوں نے میچ جیتنے کے بعد جس طریقے سے جشن منایا وہ ہمارے پالیسی سازوں، سیاستدانوں اور بعض ان سیاسی حلقوں کے لیے اپنے بعض رویوں پر نظر ثانی کی دعوت دیتا ہے جو کہ مایوسی پھیلاتے ہیں یا صوبے کے عوام کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔

اس صورتحال سے جہاں قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے وہاں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اگر ہمارے قائدین، سیاست اقتدار کی روایتی کشمکش سے نکل کر قوم کو یکجا اور متحد کرنے کا اپنا کردار نبھائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود بہت سی بدگمانیاں اور دوریاں خودبخود ختم یا کم ہو جائیں گی اور ہم اپنی نئی نسل کو ایک مستحکم، ترقی پسند اور پرامن پاکستان دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ مٹی بہت زرخیز ہے ضرورت محض اس بات کی ہے کہ اس پر نفرتوں کی بجائے محبتوں کی فصلیں کاشت کی جائیں۔

معذورضرور ہوں لیکن کمزور نہیں

تحریر :موسیٰ کمال

انسان اور معاشرے کا رشتہ کئی سالوں پرانا ہے۔انسان نے اپنی ضرورت کیلئے ہی معاشرے کو بنایا ہے اور ہر انسان چاہتا ہے کہ معاشرے میں مثبت روایت کو پیدا کرے، لوگوں کی بھلائی کے کام آئے اور منفی سوچ کو مثبت میں بدل ڈالے۔ پر ان سب خوابوں کو پورا کرنے میں بھی معاشرے کا بہت کردار ہوتا ہے کہ اپ کس معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں اپ کی تربیت کیسے ہوئی ہے اور کیا آپ کو وہی معاشرہ مثبت روایت اور کردار کا درس دیتا ہے کہ نہیں۔ تعلیم حاصل کرنا  مختلف لوگوں سے ملنا، ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور ان کے مثبت پہلوؤں کو خود پے آزمانہ ہے، اپ کو معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کیلئے چوکس بناتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو پورا کرنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ آپ صحت کے لحاظ سے مضبوط اور تندرست ہوں مگر اس سے بھی زیادہ ضروری آپکی ذہنی مضبوطی ہے جو آپ کو مایوس ہونے نہیں دیتی اور زندگی کے ہر لمحے میں کوشش محنت اور لگن جاری رکھنے پرآمادہ کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال دیر لوئر سے تعلق رکھنے والے خورشید عالم کی ہے جو خود تو پولیو سے متاثر ہے اور ہاتھ پاوں کو حرکت دینے سے بھی قاصر ہے مگر معاشرے کیلئے کچھ کرنے اور معذوری کو کمزوری نہ بناتے ہوئے انکو معاشرے کے صحتمند لوگوں سے زیادہ طاقتور بنایا ہے۔ موصوف کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کی پسماندہ علاقے ضلع دیر لوئر میں ایک چھوٹے سے گاوں  اپر خونگی سے ہے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ سال 2000ء سے پہلے انکے گاوں کو کوئی سڑک نہیں جاتی تھی جسکی وجہ سے  خصوصی افراد کی آمدورفت اور لوگوں سے میل ملاقات بہت مشکل ہوجاتی تھی۔  معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپکا معاشرے کے لوگوں کیساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو ان کے ساتھ معاشرے کے مسئلوں پر بات کرنے کا موقع ملے۔

خورشیدکا کہنا ہے کہ سال 2001 کے بعد انکے گاوں میں سڑک بنی جس سے انھیں باہر جانے کا موقع تو مل گیا مگر  انھیں معاشرے میں انھیں معذوری کی وجہ سے مختلف جملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خورشید عالم نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا  “میرے والد صاحب اس سکول میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے جسمیں سارے وہ بچے پڑھتےتھے جو بینائی اور سماعت سے محروم تھے میں بھی انکے سکول جانے لگا ۔ میرے والد بھی چاہتے تھے کہ میں بھی اور بچوں کی طرح سکول کالج اور  یونیورسٹیوں میں پڑھوں اور معاشرے میں ایک خوبصورت کردار ادا کر سکوں مگر اس وقت یہ ممکن نہیں لگتا تھا اسے وجہ سے انہوں نے مجھے کچھ ہنر سکھانے کا سوچ لیا۔ معاشرے میں کسی بھی ہنر کا استاد ہاتھ پاوں سے معذور شاگرد کو قبول نہیں کرتا کیونکہ کسی بھی دوکان پے یا اور ہنر سیکھنے کی جگہ پر اپ کو استاد کی خدمت، دوکان کی صفائی اور استاد کیلئے کام کی چیزوں کو لانے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ میں کر نہیں سکتا تھا تو کسی بھی استاد نے مجھے شاگرد کے طور پر قبول نہیں کیا۔ اس طرح میں کچھ ہنر سیکھنے سے بھی محروم ہوگیا۔”

عالم نے بتایا کہ کافی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ ان خصوصی افراد پے کیا گزرتی ہو گی جو غربت جیسی مشکلات میں جکڑے ہوئے ہیں  اور وہ اپنی ان مشکلات کو کیسے برداشت کرتے ہونگے۔ “وہاں سے میرا ان لوگوں کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔اس کے بعد میں نے باقاعدہ طور پر خصوصی افراد کے حوالے سے  سیمینار اور مختلف تقاریب میں جانا شروع کیا جہاں سے مجھے ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا تھا اور اسی طرح میں اپنی منزل کیطرف بڑھتا رہا۔”

عالم کا کہنا تھا کہ  سال 2009 میں انھوں نے باقاعدہ طور پر خصوصی افراد کیلیے “سپیشل ایبلیٹی ڈویلپمینٹ ایسوسیایشن” کے نام سے آرگنائزیشن بنائی جسکا مقصد  یہ تھا کہ خصوصی لوگ اپنی مشکلات اور مسئلوں کو خود ہموار کریں چاہے وہ فزیکل ہوں یا معاشرے کے روئیے۔ 2015 میں اس ادارے کو یونائیٹڈ نیشن کی طرف سے خصوصی حیثیت مل گئی جو پورے خیبرپختونخواہ کےلیئے بڑا اعزاز ہے۔ “یہ پہلا ادارہ یا آرگنائزیشن ہے جسکو یہ اعزاز نصیب ہوا ہے۔ اسی  وجہ سے ہمیں یونائیٹڈ نیشن میں خصوصی حیثیت حاصل ہوئی تھی اور پاکستان سے میں وہاں ان لوگوں کی نمائندگی کرنے جاتا تھا۔ بعد میں ہم نے اپنی اسی آرگنائزیشن کو صدا فاونڈیشن کے نام سے یونائیٹڈ نیشن میں رجسٹرڈ کیا. اسی سلسلے میں مجھے کئی ملکوں کا دورہ کرنا پڑا اور وہاں سے  میں نے بہت کچھ سیکھا. جو سیکھا وہ صدا فاونڈیشن میں کام لانے کی کوشش کرتا رہا جو میری کامیابی کی وجہ بنی۔”

عالم کے مطابق موجودہ وقت میں صدا فاونڈیشن خصوصی افراد کیلئے پانچ پروگرام چلا رہی ہے جسمیں سب سے اہم خصوصی افراد کو تعلیم دینا ہے۔ “ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو تعلیم فراہم کریں جنکو معاشرہ اور تعلیمی ادارے قبول نہیں کرتے  کیونکہ چلنے کی سکت سے محروم بچے نا تو سیڑھیاں چڑھ سکتے اور نا اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ تو ہم نے ان لوگوں کیلیے سکول بنایا اور اس میں ان بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔”

خورشید عالم کے مطابق انکی فاؤنڈیشن نے خصوصی بچوں کے والدین کو تعلیم فراہم کرنیکا سلسلہ بھی شروع کیا جو معذور ہوں، ان کو تعلیم دینا اسلئے ضروری تھا کہ ان کے بچے احساس محرومی سے بچ سکیں یہ ایک منفرد آئیڈیا تھا اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ پچھلے 2 سال سے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہےگا۔