پشاور سے عمران خان کا رابطہ عوام مہم کا آغاز

 تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے چند روز بعد پشاور کے ایک بڑے اجتماع سے رابطہ عوام مہم کا آغاز کیا جس میں ٹاپ لیڈرشپ کے علاوہ کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی جبکہ انہوں نے اس موقع پر تکرار پر مبنی تقریر کے دوران اعلان کیا کہ احتجاجی جلسوں کا یہ سلسلہ موجودہ حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کے اعلان تک جاری رہے گا۔

اپوزیشن اور آزاد صحافتی حلقوں نے الزام لگایا ہے اور وزیر اعلی محمود خان کی باتوں سے بھی اندازہ لگایا گیا کہ اس جلسے میں نہ صرف پورے صوبے سے کارکن چلے آئے تھے بلکہ صوبائی حکومت کے وسائل pti jalsa peshawar 14 april 2022بھی استعمال کیے گئے۔  اس کے باوجود آزاد ذرائع نے شرکاء کی تعداد 30 سے 45 ہزار بتائیں جو کہ پی ٹی آئی کی توقع سے تو کم تھی مگر جلسے کو بڑا پاور شو قرار دیا گیا۔

 سینئر صحافی علی اکبر کے مطابق صوبے کی سطح پر کیے گئے انتظامات، عمران خان کی مقبولیت اور حکومتی سرپرستی جیسے عوامل کے باوجود شرکاء کی تعداد اتنی نہیں تھی جس کی توقع کی جارہی تھی تاہم اس کے باوجود یہ ایک کامیاب پاور شو رہا ہے۔  ان کے مطابق عمران خان نے وہی پرانی باتیں دہرائیں ، وہ کافی غصے میں دکھائی دیے اور ان کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی ۔

سینئر تجزیہ کار عارف یوسفزئی کے مطابق پشاور کا اجتماع عمران خان اور ان کے کارکنوں کے جذباتی ردعمل کا اظہار تھا۔  وہ مزاحمت کے موڈ میں نظر آئے مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا آئندہ کا لائحہ عمل احتجاجی جلسوں سے ہٹ کر کیا ہے۔  ان کے مطابق کسی بھی پارٹی کے لئے اتنا ہجوم اکٹھا کرنا مشکل کام نہیں ہے اور دوسری پارٹیاں ماضی میں یہ ثابت کرتی آئی ہے ۔

عمران خان اور دوسرے لیڈروں نے حسب سابق اپنی حکومت کو بیرونی اور امریکی سازش کا نتیجہ قرار دے کر وہی بیانیہ اپنایا جس کی بنیاد اس خط یا مراسلہ پر قائم ہے جس کی تحقیقات کا ہونا ابھی باقی ہے۔ سابق وزیراعظم نے اسی انداز میں اپوزیشن کو برے ناموں اور القابات سے مخاطب کیا جو کہ ان کی وہ خاصیت اور عادت رہی ہے تاہم انہوں نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر بھی کڑی تنقید کی اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ پر بھی اس کے باوجود سخت تنقید کی کہ اس کے ذریعے حساس اداروں اور فوج کے خلاف مہم ثابت ہو چکی ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا عمران خان اور ہر کسی کا جمہوری حق ہے تاہم تلخی اور کشیدگی بڑھانے کی بجائے اگر وہ شائستگی اپنا کر دلائل کی بنیاد پر اپنی سرگرمیاں اپنائیں تو ان سمیت سب کے لئے بہتر ہوگا۔

سوشل میڈیا اور انتہاپسندی

سیدفخرکاکاخیل
سیاست پر آج کل بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن معاشرت پر پتا نہیں کیوں ہم نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں رونما ہونے والا واقعہ کس آسانی سے ہم بھول بھی گئے۔ ایک خاتون نے دن دہاڑے سرے عام ایک دوسری خاتون کا گلہ کاٹ دیا۔ یہ ہم رحمت اللعالمین کے نام پر کیا کرنے لگے ہیں۔ ایک مذاق بنا دیا ہے ہم نے ہر شخص مفتی بنا پھرتا ہے جیب میں فتویٰ لیئے گھومتا ہے۔ مجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ جب دور سے امام مسجد کو راستے پر آتا دیکھتے تو وہیں دم سادھے رک جاتے تھے۔ سلام اور حاضری کے بعد ہی ہمارے وجود میں حرکت آتی تھی۔ لیکن اب فیس بک، یو ٹیوب اور دیگر آن لائین پلیٹ فارمز پر کسی نے کچھ بھی سن لیا اور خود سے مفتی بن بیٹھے۔ قصہ یوں تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم محسود قبیلے کی دو خواتین جو مقامی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھیں آپس میں آئے دن کوئی نہ کوئی مناظرہ کرنے بیٹھ جاتی تھیں اور بسا اوقات تلخ کلامی تک ہو جاتی۔ ایک دن ایک خاتون کو اس کی تیرہ سالہ رشتہ دار نے کہا کہ اس نے خواب دیکھا ہے کہ دوسری خاتون توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہیں اور اب اس کا گلہ کاٹنا ضروری ہے۔ اس لیئے وہ خاتون دیگر دو خواتین کے ہمراہ مقامی مدرسہ کے سامنے پہنچیں اور جیسے ہی مطلوبہ خاتون رکشہ سے اتریں تینوں نے ہلہ بول دیا۔ برقعہ ہٹا کر گلے پر چھری پھیر دی اور اللہ واکبر کی صدا بلند کی۔ پولیس کے سامنے بھی من ودعن یہی بیان دیا۔ پولیس نے بھی مزید تفتیش روک کر چالان جمع کردیا ہوگا۔ اب یہ جج کے لیئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ ایک خواب پر کس طرح توہین رسالت کا عذر مانا جا سکتا ہے۔ یہ سارا کام تفتیشی افسر کا تھا کہ کیس کو مکمل تفتیش کے ساتھ چالان بناتا۔ مطلب کل کو کوئی بھی یہ کہہ کر کہ اس نے خواب دیکھا ہے اور فلاں شخص توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے جو اس معاشرے میں جنم لے رہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ریاست مدینہ کے نام پر نوجوانوں کو جس راہ پر ڈال دیا گیا ہے اتنا تو دینی جماعتوں نے بھی نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر اب بھی وہ مناظر موجود ہیں کہ جس میں دو وفاقی وزراء خودکش حملہ آور بننے کے ارادے ظاہر کرتے ہیں۔ منطق اور دلیل کو معاشرے میں گالی اور دھمکی سے پر کردیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک صحافی نے سوال پوچھا تو اسے بھی گالی سے نوازا گیا۔ جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ سے پورے ملک کے جوانوں کو “حسن بن صباح کی مصنوعی جنت” کے خواب دکھا کر انتہاپسند بنانے کا عمل انجانے میں نہیں کیا گیا بلکہ غیرملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں کہ جس میں قومی رحجانات کے گراف کے ساتھ بتایا گیا کہ مذہب اور مغرب دشمنی کے نعروں سے اس قوم کو گھیرا جا سکتا ہے۔ گھر گھر میں اب تقسیم آ چکی ہے۔ کیا سیاسی قیادت اور کیا ریاستی ادارے سب اس وقت گالم گلوچ کی زد میں ہیں۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا اور نہ ہی یہ سب ایسے ہی ہوا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کی گالم گلوچ کی تربیت کی گئی اور ایمان کی حد تک ان کو ایک نظریئے پر لگایا گیا۔ اب اس کے ثمرات آنا شروع ہوگئے۔ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت اور اداروں کو اب اس وائرس کا توڑ کرنا ہوگا۔ بلکہ کئی ادارے بنانا ہوں گے کہ جو ابلاغی جنگ کے نام پر بننے والی اس انتہا پسند نسل کو راہ راست پر لا سکے اور مستقبل میں ان کے ذریعہ درپیش چیلنجز کا سامنا کر سکے۔ یہ نسل تیار تو کی گئی تھی اس نام اور امید کے ساتھ کہ یہ بیرونی محاذ پر لڑے گی لیکن ان کی تمام تر توجہ ملک کے اندر جمہوری اداروں اور جمہوری قوتوں کے خلاف رہی۔ دراصل ہمارے ادارے اس چال کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ ملک کے اندر جو نسل تیار ہو رہی ہے ایک دفعہ یہ تیار ہو جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت آسانی سے عسکریت پسندی کی طرف راغب کیا جا سکے گا۔ یقین مانیئے کہ یورپ اور خلیجی ریاستوں کی نوجوان نسل اسی طرح سوشل میڈیا پر تیار ہوئی اور یہ نسل کیسے داعش جیسی تنظیموں کے ہتھے چڑھی اس پر اب تو کافی تحقیق کی جا رہی ہے۔ اگر ادارے اور سیاسی قیادت صرف رک کر بیٹھ کر کڑیاں ملانے لگے تو ان کو اس سارے ڈیجیٹل سازش کے تانے بانے مل جائیں گے۔ اس سلسلہ میں ان کو ان محقیقین کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ جو یورپ، امریکہ اور خلیجی ریاستوں میں داعش اور نوجوان نسل کی ترجیحات پر کام کر رہی ہیں۔ وہ انہیں بتائیں گے کہ کس طرح نوجوان نسل پہلے سیاسی طور پر اسلام کے نام پر ایک “مثالی ریاست” کے نعرے میں پھنسا دیئے گئے اور پھر ان کو جنگ اور تشدد کی طرف موڑا گیا۔
یہ جو واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا ہے اس کو صرف ایک واقعہ سمجھ کر بھول جانا ہماری بہت بڑی حماقت ہوگی۔ ایک دن میں یہ خاتون اس عمل تک نہیں پہنچی بلکہ اردگرد کا ماحول اور اس کی سوچ اس کو یہاں تک کئی برس لگانے کے بعد لے آئی۔ کلاچی میں ایک سیاسی خاندان پر خودکش حملوں کے لیئے حملہ آور کہاں سے آئے، وہ کیسے تیار ہوئے۔ ظاہری بات ہے کہ اس خطہ میں یہ سوچ ہے اور اس کو آشیرباد حاصل ہے تبھی تو یہ ممکن ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگر اس وبا پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ہمارے اداروں، سکولوں، کالجوں عرضیکہ کہ جہاں نوجوان ہوں گے وہاں پھیلے گی۔ اس سلسلہ میں علماءکرام کا بہت بڑا کردار ہوگا کہ وہ اس انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے۔ گو کہ اس وقت آپ کو یہ انتہاپسندی پر مبنی سیاسی سوچ نظر آئے گی لیکن کب یہ متشدد ہو گی آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔
اپنے تجربہ اور مشاہدے کی بنا پر اندازہ لگا سکتا ہوں کہ کم ازکم خیبر پختونخوا کی حد تک دہشت گردی میں اضافہ ہونے والا ہے اور اس میں اکثریت نوجوان لوگوں کی ہو گی۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ اداروں نے سوشل میڈیا پر ملک کو ہیجانی صورتحال سے دوچار کرنے، افواہوں کو پھیلانے، غیر یقینی صورتحال کو برقرار رکھنے اور اہم شخصیات کے خلاف ہتک آمیز مہمات چلانے کے نیٹ ورک کا سراغ لگا کیا ہے۔ اس میں سابق وزیراعظم سمیت دو وزراء و مشیران، ایک بیوروکریٹ،ٹی وی کے تین اینکرز اور سوشل میڈیا کی ایک منظم ٹیم کے ملوث ہونے کے ابتدائی شواہد ملے ہیں اور ان خطوط پر ابھی کام جاری ہے

این اے 33ہنگو ضمنی الیکشن کے لیئے انتظامات مکمل

این اے 33ہنگو ضمنی الیکشن کے لیئے انتظامات مکمل کر لیئے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر 3لاکھ 14ہزار سے افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انتخابی مہم کل آدھی  رات ختم ہوگیا اور  پولنگ صبح 8بجے شروع ہوکر شام 5بجے تک بغیر کسی وقفہ کے جاری رہیگی۔ 

       قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 ہنگو کی خالی نشست پر 17اپریل 2022 کو ہونیوالے   ضمنی  الیکشن  کے لئے   تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔انتخابی مہم  کل آدھی رات ختم ہوگی، پولنگ 17اپریل کی صبح 8بجے شروع ہوکر شام 5بجے تک بغیر کسی وقفہ کے جاری رہیگی،  مجموعی طور پر 3لاکھ 18ہزار سے 900 سے زاید  افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ کُل 210پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں مرد حضرات کے لئے 64خواتین کے لئے 55اور 91 مشترکہ طور پر بنائے گئے ہیں جبکہ 110پولنگ اسٹیشن  حساس، 77 انتہائی حساس قرار دئے گئے ہیں، جس کے لئے سیکورٹی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح انتخابی عملے  کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے، جن کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی ہےاوراس ضمنی الیکشن میں 5امیدواروں میں مقابلہ ہو رہا ہے جن میں  اے این پی سے سعید عمر، جے یو آئی سے عبداللہ، آزاد امیدواران  عتیق احمد اور محمد سعید اور پی ٹی آئی سے ندیم خان شامل ہیں،  16اپریل کو تمام پولنگ عملہ کو انتخابی سامان فراہم کرکے انہیں اپنے پولنگ اسٹیشنوں کو روانہ کردیا

 جائیگا۔ ضمنی الیکشن کی نگرانی کے لئے  صوبائی الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا کے دفتر میں کنٹرول  روم قائم کیا گیا ہے۔ کسی بھی شکایت کی صورت میں عوام  ٹیلی فون نمبرات 091-9211034, 091-9222475پر رابطہ کرسکتے ہیں،

صوبائی الیکشن کمشنر خیبرپختونخوا محمد رازق نے حلقے کے تمام ووٹرز سے اپیل کی ہے کہ وہ بلاخوف وخطر اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔