Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, March 15, 2025

پاک افغان تجارت کی موجودہ صورتحال

علی اکبر خان
پاک افغان دوطرفہ تجارتی حجم3 ارب ڈالر سے سکڑ800 میلن ڈالر تک رہ گیا ہے،سب سے بڑا دھچکا سیمنٹ ایکسپورٹ کو لگاجو 8000 ہزار میٹرک ٹن سے کم ہوکر2500 ہزار میٹرک ٹن تک گرگیا ہے۔
افغانستان سے اگست 2021 میں امریکی انخلا اور طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے ۔ پاکستان کے ایکسپورٹ کے لئے افغانستان موزوں مارکیٹ رہی ہے جہاں سے پاکستانی مصنوعات سینٹرل ایشیا کے کئی ممالک کو برامد کیجاتی ہے اور اسی طرح افغانستان سے پھل سبزیاں اور را میٹریل با اسانی اور سستے داموں پاکستان درامد کیجاتی ہے،تاہم گزشتہ اٹھ نو ماہ سے یہ دوطرفہ تجارتی اخری سانسیں لے رہا ہے۔
پاک افغان کمیٹی کے سربراہ شاہد حسین کیمطابق سازگار وقتوں 2008سے 20013 کے دوران دوطرفہ تجارتی حجم 3ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد دوطرفہ تجارتی ھجم 800 سے 1000میلن ڈالر کے بیچ پھنس گیا ہے۔
امریکی نیٹو انخلا اور طالبان کے انتقال اقتدار کے بعد پاکستان سے افغانستان کو سیمنٹ اور خوراکی مواد کی ایکسپورٹ پر منفقی اثرات مرتب ہوگئے ہیں ،پاک افغان ٹریڈ کمیٹی کیمطابق امریکی انخلا سے پہلے تورخم ،غلام خان اور خر لاچی کی راہداریوں سے روزانہ کی بنیاد پر 6000سے 8000 میٹرک ٹن سیمنٹ روزانہ کی بنیاد پر افغانستان برامد کیا جاتا تھا جبکہ اب روزانہ کی بنیاد پر ان تین راہداریوں سے 2000سے 2500میٹرک ٹن سیمنٹ ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔طورخم بارڈر حکام کیمطابق گزشتہ سال یعنی طالبان کے اقتدار میں انے سے پہلے طورظم ٹرمینل سے ڈھائی سو کے قریب سیمنٹ کے ٹرک افغانستان جایا کرتے تھے جبکہ صرف چالیس سے پچاس سیمنٹ کے ٹرک جاتے ہیں۔
پشاور کی مقامی مارکیٹوں سے روزانہ کی بنیاد پر افغانستان کے ساتھ اربوں روپے کا دو طرفہ تجارت ہوتا تھا جو سقوط کابل کے بعد اب نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے،پشاور کی خوراکی مواد کی سب سے بڑی منڈی پیپلز منڈی کے تاجر وں کیمطابق افغانستان میں انتقال اقتدار سے نا صرف ان کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے بلکہ کاروبار میں کروڑوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
پیپلزمنڈی کے نائب صدر حبیب الرحمان کیمطابق ان کو ذاتی طور پر دو کروڑ سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا،پاک افغان دو طرفہ تجارت میں کمی پر حبیب الرحمان نے کہا کہ بارڈر کے ارپار امدورفت پر سختیوں اور افغانستان میں بنکوں کی بندش سے بھی تاجر اب کاروبار سے کتراتے ہیں۔
پاک افغان دوطرفہ تجارت میں انتہائی کمی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ دو دہائیوں سے افغانستان میں حکومتی نظام میں اچانک اور غیر متوقع تبدیلی ہے جس کے باعث پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے،ملک میں جاری ملکی اور بین القوامی فنڈنگ سے ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں اوربنکنگ سیکٹر غیر فعال ہوگیا ہے ۔پاک افغان جوائینٹ چیمبر اف کامرس کے وائس پریذڈنٹ ضیاالحق سرحدی کہتے ہیں کہ اافغانستان کی صورتحال تو خراب ہے ہی لیکن حکومت پاکستان نے بھی تاجروں کو اسانیاں فراہم کرنے کی بجائے مشکلیں بڑھا دئے ہیں۔
ذیاالحق سرحدی کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹ کے لئے ای فارم کا ہونا ضروری ہے پہلے چوک یادگار سے ڈالرز خرید کر یہاں بنک میں جمع کرکے تاجر اسانی سے ایکسپورٹ کرتے تھے اب ایکسپورٹ کے لئے افغانستان کے بنکوں میں ڈالرز جمع کرنے کی پالیسی ہے اسی طرح امپورٹ کے لئے افغانی تاجروں کو پاکستانی بنکوں میں ڈالرز جمع کرنے کی پالیسی ہے جبکہ افغانستان میں بنکنگ سیکٹر غیر فعال ہے اور دونوں اطراف ڈالرز کی کمی بھی ہے ،جبتک حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے ہیں ھکومت کو فورا پرانی تجارتی پالیسا بحال کرنی چاہیئے اور دونوں ممالک کو تمام تجارت روپے کرنسی میں کرنے کی اجازت دینی چاہیئے۔
دوطرفہ تجارت میں کمی باعث دونوں ممالک میں اشیا باالخصوص خوراکی میں مواد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اصافہ ہوگیا ہے جس کے باعث صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے۔۔سیمنٹ کے علاوہ افغانستان کو اٹا،چینی چاول،دالیں،گڑھ ،گھی،سٹیل،ٹائرز وغیرہ پاکستانی برامدات میں شامل ہیں جبکہ افغانستان سے کاٹن ڈرائی فروٹ،تازہ پھل سبزیاں ،سبز چائے وغیرہ بڑے پیمانے پر درامد کیا جاتا ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق پاک افغان دو طرفہ تجارت میں کمی کا رجحان افغانستان حکومتی نظام کے استحکام اور بین القوامی سحطح پر افغانستان کی حیثیت تسلیم نہ کرنے تک جاری رہ سکتا ہے ،جبتک یہ مسائل حل نہیں ہوتے تو دونوں ممالک کو باہمی مشاورت سے تاجروں کو اسانیاں فراہم کرنی چاہیئے تاکہ دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket