تحریر: موسی کمال یوسفزے
دنیا بھر میں جہاں کمپوٹر او الیکٹرانک مشین آنے سے آسانیاں پیدا ہوئیں وہیں کئی روزگار بھی جدید دور کے تقاضوں سے بری طرح متاثرہ ہوئے۔ دنیا میں کمپوٹر بننے سے پہلے لوگ ہاتھ سے کام کرتے تھے چاہے وہ ڈیزائننگ ہو یا کسی چیز کا حساب کرنا ہو۔سن 70 کی دہائی سے پہلے ہر اس چیز کیلئے ہاتھ یا دوسرے خودکار آلے استعمال ہوتے تھے جو آج کل کمپوٹر اور دوسری الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والہ گل فراز بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو کمپوٹر آنے کے بعد یا تو بے روزگار ہوئے یا پھر انکا کاروبار متاثرہ ہوا ہے۔ گل فراز نے وائس آف کے پی کو بتایا کہ جب کمپوٹر کا زمانہ نہیں آیا تھا تو ہم ہاتھوں سے الیکشن مہم کیلئے فلکس ، پمفلٹس او دیگر چیزیں بناتے تھے مگر کمپوٹر آنے کے بعد ہمارا کاروبار بہت بری طرح متاثرہ ہوا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور سے لیکر ذولفقار علی بھٹو اور دیگر ادوار میں ہم نے الیکشن کیلئے ہاتھوں سے مہم جوئی کی ہے ۔ گل فراز نے کہا کہ اب موجودہ دور کے تقاضے بدل گئے ہیں اور لوگ با آسانی اپنی انتخابی مہم اور دیگر ضروریات کمپوٹر سے پوری کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرانے زمانے کے آرٹیسٹوں نے آج بھی ملک، صوبے او علاقے کی ثقافت کو اپنے ہاتھوں سے محفوظ کیاہے اور ایسی بہت سی ثقافتی چیزوں کو تصویروں کی شکل میں محفوظ کیا ہے جو آنے والی نسلیں کئی دہائیوں کے بعد بھی دیکھ سکتی ہیں۔
مگر بدقسمتی سے اگر حکومتی سطح پر کوئی پروگرام یا نمائش کا انعقاد ہوتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر وہ لوگ مدعوہوتے ہیں جو جدید دور کے تقاضوں سے واقف ہوں۔ اگر پرانے آرٹیسٹوں کو توجہ نا دی گئی تو یہ آرٹیسٹ اور ان کا فن ختم ہوجائے گا۔ گل فراز نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی لوگوں کو ٹریننگ دی ہے جو اب اسی پرانے فن کو نئے تقاضوں کے تحت ڈھال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کا مشہور ٹرک آرٹ آرٹسٹ سیار خان بھی انکا شاگرد رہ چکا ہے۔ “اگر حکومت ایسی ایک اکیڈ٘می بنائے جس میں سب پرانے آرٹیسٹ نئے لوگوں کو ٹرین کریں تو وہ دنیا میں ملک او صوبے کا نام روشن کریں گے۔ اگر اسی طرح یہ آرٹسیٹ نظر انداز ہوتے گئے تو اس فن کو بہت نقصان پہنچے۔” انھوں نے مزید کہا۔
گل فراز خطاطی او اسکیچ بنانے کا بھی ماہر ہے اور کئی سیاسی سماجی اور فوجی افسران کے اسکیچ بنا چکا ہے۔ گل فراز اب بھی نوشہرہ کے بازار میں اپنی دوکان پر کام کرتا ہے مگر ان کے کام کی اب وہ اہمیت نہیں رہی اور بہت کم لوگ ہاتھ سے کام کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔