ٹرانس پشاور کو ایک اور بین الاقوامی اعزاز حاصل

پشاور: پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) کے آپریٹر ٹرانس پشاور نے برطانیہ میں ٹرانسپورٹ ٹکٹنگ گلوبل کی جانب سے دیا جانے والا ‘بہترین سمارٹ ٹکٹنگ پروگرام’ کا ایوارڈ جیت لیا ہے۔

یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوارڈ ٹرانسپشاور کی جانب سے جدید حل کے ذریعے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی زندگیوں کو آسان بنانے کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ایل ایم کے ریسورسز پرائیویٹ لمیٹڈ پشاور بی آر ٹی سسٹم کے لیے اسمارٹ ٹکٹنگ سلوشن اور خدمات کے لیے ٹرانسپشاور کا ٹیکنالوجی پارٹنر ہے۔

جیتنے والوں کا اعلان 10ویں سالانہ ایوارڈز کے دوران کیا گیا، جو 28 جون 2022 کو لندن میں منعقد ہوا۔

یہ ایوارڈ کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ان کے ٹکنالوجی پارٹنر کو تسلیم کرتا ہے جس نے پچھلے دو سالوں میں ایک کامیاب سمارٹ ٹکٹنگ پروگرام شروع کیا ہے۔ جس نیٹ ورک پر پروگرام لاگو ہوتا ہے اسے روزانہ 200,000 یا اس سے زیادہ سفر کرنا لازمی ہے۔ ٹرانس پشاور نے چھ فائنلسٹ کے گروپ میں سے یہ ایوارڈ جیتا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بس سروس بحال کرنے کا فیصلہ

عقیل یوسفزئی
یہ اطلاع بہت خوش آیند ہے کہ پاکستان کے ایک سرکاری وفد کے ایک حالیہ دورہ کابل کے دوران طے یہ پایا ہے کہ دونوں برادر ممالک کے عوام کی آمدورفت کے لیے اگست سے دو روٹس پر جدید بس سروس کا آغاز کیا جائے گا جبکہ ویزا پراسیس کو سہل بنانے اور دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا ہے. پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے قیادت میں کابل کا دورہ کرنے والے وفد نے افغانستان کے متعلقہ حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے دوران فیصلہ کیا کہ اگست سے طورخم اور چمن کی کراسنگ پوائنٹس پر جدید بس سروس کا آغاز کیا جائے گا جبکہ ویزا پالیسی کو بھی آسان بنا دیا جائے گا ساتھ میں تجارت بڑھانے اور مزید کراسنگ پوائنٹس کو فعال بنانے کے اقدامات بھی کئے جائیں گے.
تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت وہاں کے مسائل کے باعث تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ 40 سے 50 کروڑ کہی جارہی ہے حالانکہ سال 2017 کے دوران یہ تجارت دو سے تین ارب ڈالر تھی اور سال 2002 سے 2009 تک یہ ریکارڈ چار ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی.
پاکستان کے لیے افغانستان سب سے آسان اور منافع بخش مارکیٹ ہے تاہم ہمارے متعلقہ اداروں کی غیر سنجیدگی اور افغانستان کے حالات کے باعث ہم اس وسیع مارکیٹ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے. افغانستان کے راستے ہم سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور مشرقی یورپ کی مارکیٹ تک بھی آ سانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں. ان ممالک کو ہم نے کبھی اس پس منظر میں اہمیت نہیں دی کہ ہم وہاں سے دوطرفہ طور پر توانائی کے بحران کے خاتمے اور تجارت سمیت ناقابل یقین فوائد حاصل کرسکتے ہیں. اب چونکہ روس سمیت ان ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بہتر ہوگئے ہیں اس لیے لازمی ہے کہ اس جانب غیر معمولی توجہ دی جائے اور اگر ہم نے ایسا کیا تو ہماری معیشت کو پر لگ جائیں گے کیونکہ سی پیک اور بعض دوسرے منصوبوں کے ذریعے لا محدود فوائد حاصل کرنے کے مواقع مزید بڑھ گئے ہیں.
سنٹرل ایشین افییر کے ممتاز اقتصادی ماہر ڈاکٹر غلام صمد کے مطابق افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں پاکستان کے لیے بے پناہ تجارتی گنجائش موجود ہے. اگر ہمارے پالیسی ساز اس جانب توجہ دیکر عملی اقدامات کرے تو ہم نہ صرف یہ کہ جاری اقتصادی بحران اور اس کے پیدا شدہ مسائل سے نکل آئیں گے بلکہ ہم معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں بھی داخل ہو جائیں گے. ان کے مطابق ایسا ہونے سے مغرب پر ہمارا انحصار کم ہوجائے گا. اس سے جنگ زدہ پاکستانی علاقوں کے لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی اور پیپلز ٹو پیپلز کنٹکٹ کے فارمولے کے تحت ان ممالک کے مجموعی تعلقات میں بھی غیر معمولی بہتری واقع ہوگی.
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو ان مواقع سے فوری طور پر فایدہ اٹھانے میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ خطے کے تمام ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لائی جاسکے اور مستقبل کے چیلنجز کو امکانات میں تبدیل کیا جا سکے.

شمالی وزیرستان: ہیضہ کی وباء کے خلاف اقدامات

شمالی وزیرستان دوسلی میں پھیلی ہوئی ہیضہ کی وبا پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے ۔ 
اب تک دن رات مسلسل سخت جدوجہد کے بعد بارہ دنوں میں اس ہیضہ سے متاثرہ 973 افراد کا علاج کیا جا چکا ہے ۔

اس سلسلے میں شمالی وزیرستان ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ خصوصاً قائم مقام ڈی ایچ او ڈاکٹر شمس الرحمن ، ان کی ٹیم اور علاقے کی ایک غیر سرکاری تنظیم کلین دوسلی سوسائٹی کے کردار اور اقدامات قابل ستائش ہیں ۔
 عوام کا کہنا ہے کہ اگر ہم ہر علاقائی مسئلے کیلئے اسی طرح دلجمعی اور خلوص سے مشترکہ جدوجہد کرکے کردار ادا کرتے رہے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے رستے میں کوئی بھی مسئلہ حل کئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔