عقیل یوسفزئی
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے معاملے پر اپریل سے لیکر اب تک جو گیم کھیلے گئے اور جمہوریت، دستور کے نام پر جس نوعیت کے ڈرامے رچانے کی نت نئی مثالیں قائم کی گئی وہ نہ صرف ہماری پارلیمانی تاریخ میں برے الفاظ میں یاد رکھے جائیں گے بلکہ اس رویے کے باعث سیاسی کشیدگی اور بد اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا.
مسئلے کا ایک جز ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں فیلحال حل ہوگیا ہے تاہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پرویز الٰہی کی حکومت چلے گی بھی یا نہیں.
ایک بار سیاسی جماعتوں نے بوجوہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ان میں سیاسی معاملات اسمبلیوں کے زریعے حل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے نہ ہی ان کے لیے کسی بنیادی اصول کی کوئی اہمیت ہے. ورنہ ان مسائل کو پارلیمانی روایات اور طریقہ کار کے مطابق کسی اور ادارے کی مداخلت کے بغیر حل کیا جاتا.
عمران خان نے ایک اقلیتی پارٹی کے امیدوار کو وزیر اعلیٰ بنایا تو اس سے قبل اتحادیوں نے باپ کو وزیراعظم اور بیٹے کو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا. یہ سیاست کے مروجہ ھتکھنڈے تو کہلائے جاسکتے ہیں ان کو کسی اصول کا نام نہیں دیا جاسکتا. رہی بات عدلیہ کے کردار کی تو اس کو سیاسی معاملات میں جب بھی ملوث کیا گیا اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور حالیہ فیصلے نے بھی سیاسی، قانونی اور عوامی سطح پر یہی منفی تاثر چھوڑا ہے جو کہ عدلیہ کے وقار کے لئے کسی بھی طور نیک شگون نہیں ہے. اس فیصلے نے قوم کے علاوہ ماہرین قانون اور سیاسی جماعتوں سب کو پھر سے تقسیم کر دیا ہے اور اس کی آفٹر شاکس لمبے عرصے تک محسوس کی جاتی رہیں گی.
بعض حلقوں نے حسب معمول ملک کی مقتدر قوتوں کو بھی اس معاملے میں کھینچنے کی پھر کوششیں کیں حالانکہ وقف حال لوگوں کو علم ہے کہ ان اداروں کا اس گیم میں کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ ان کی کوشش اور خواھش رہی کہ دستور کے مطابق ان تمام مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جائے تاکہ ملک آگے بڑھ کر ترقی کرسکے.
ملک میں اس کے باوجود یہ بحث پھر سے دہرائی گیء کہ بحران کے حل کے لیے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا جائے تاہم اس کے نتیجے میں بحران کم ہوگا یا بڑھے گا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ جاری کشیدگی اور بحران سال 2018 کے الیکشن کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا اور تمام سیاسی جماعتیں اس کے باوجود حالات کو سنبھالنے میں ناکام رہی تھی کہ ہر پارٹی کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ تھی.
اب بھی مقبول عام پارٹیوں میں جماعت اسلامی اور پختون خوا میپ کو چھوڑ کر تقریباً تمام پارٹیاں کسی نہ کسی صوبے یا مرکز میں برسر اقتدار ہیں.
عمران خان نئے انتخابات کا ایجنڈا لیکر نکلے ہیں مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار کا سب سے مرکزی شییر ہولڈر پنجاب کی حالیہ تبدیلی کے بعد عمران خان ہی ہیں. صدر کا عہدہ ان کی پارٹی کے پاس تو پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر اور جی بی کی حکومتیں بھی ان کی ہیں. اب شیخ رشید سمیت بعض دیگر نے یہ بیانات بھی دیے ہیں کہ وہ پنجاب کے بعد مرکز میں عدم اعتماد لاکر پھر سے اپنی حکومت بنانے کا سوچ رہے ہیں. اگر اپروچ یہی ہے تو عمران خان اور ان سب سے بجا طور پر یہ پوچھنا ہر کسی کا حق نہیں بنتا کہ درمیان میں آپ نے اداروں اور عالمی طاقتوں سمیت دوسرے تمام سیاسی قوتوں پر سازش کے جو الزامات لگائے اور اس سے جو بدنامی ہوئی اس کا جواز کیا پیش کیا جائے گا؟
سب سے اہم ایشو یہ بھی ہے کہ اس تمام توڑ پھوڑ میں بدگمانیاں اور تلخیاں پیدا کرنے سے پاکستان کی ریاست، معیشت اور سب سے بڑھ کر معاشرت کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کون کرے گا.
سچی بات تو یہ ہے کہ ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا ادراک اور احساس کسی کو نہیں ہے اور سب حصول اقتدار کے لیے سرگرم عمل ہیں. اب بھی وقت ہے کہ ذاتی انا، لالچ اور خودغرضی سے نکل کر قوم کو اس کشمکش، کشیدگی اور بے سکونی سے نکال کر مستقبل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس ملک پر رحم کیا جائے.
