عقیل یوسفزئی
پشاور کے علاقے گلبہار میں ایک باصلاحیت خاتون صحافی ذکیہ خان پر نصف درجن نامعلوم ملزمان نے ان کے گھر میں گھسنے کی کوشش کرکے ان کو تیزاب کے زریعے نشانہ بنانے کے جس سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ نہ صرف انتہائی افسوس ناک ہے بلکہ اس سے صحافیوں سمیت ہر طبقے کے لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں اور اس واقعے کا انتہائی سخت نوٹس لینا چاہئے.
اگر ذکیہ خان نے جرآت اور چابکدستی کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتا اور مین دروازہ بند کر کے حملہ آور کے اندر گھسنے کا راستہ نہیں روکا ہوتا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ایک ایسے وقت میں جبکہ وہ اپنی ایک کم عمر بیٹی کے ساتھ گھر میں اکیلی تھی. ان کے بیان کے مطابق جو بندہ تیزاب کی بوتل لیکر دروازے تک آگیا تھا اس کے ساتھ مزکورہ عمارت کے نیچے اور بھی متعدد لوگ موجود تھے. ذکیہ خان سمیت ایک درجن سے زائد خواتین پشاور میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ساتھ برسوں سے کام کرتی آرہی ہیں اور ان کے کام کو بہت سراہا جاتا ہے. پشاور میں ان کی موجودگی اور کنٹری بیوشن نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ ان کو درکار تحفظ، بہتر مواقع دینا اور ان کی حوصلہ افزائی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے تا کہ میڈیا انڈسٹری میں ایسے مزید لوگوں کی حوصلہ افزائی کا راستہ ہموار ہو.
اس واقعے کے ذمہ داران اور اس واردات کے پیچھے موجود عوامل کو روایتی چل چلاو کی بجائے تحقیقاتی بنیادوں پر تفتیش کی جائے اور کسی بھی پیشرفت سے صحافتی تنظیموں کو مستقل بنیادوں پر اعتماد میں لیا جائے. اس کے علاوہ تمام صحافیوں کو تحفظ دینے کا ایک مربوط اور کوئیک رسپانس کے کسی نظام کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے.
ایک اور واقعہ میں پشاور کے ایک مصروف روڈ پر خواجہ سراوں کے ایک گروپ پر سر عام اندھا دھند فائرنگ کردی گئی جس سے ایک جاں بحق جبکہ متعدد دیگر زخمی ہوگئے. پچھلے ہفتے بھی ایک کو مارا جاچکا تھا. پاکستان میں خواجہ سراوں کے قتل اور تشدد کے واقعات میں پشاور اور پختون خوا سرفہرست ہیں. اگر چہ ایسے واقعات میں ان کی اپنی مبینہ غلطیوں اور بد احتیاطی کا بھی عمل دخل پایا جاتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کو بے یار و مددگار سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جائے یا قتل کیا جائے.
ایک حالیہ سروے اور رپورٹ کے مطابق کم عمر بچوں اور بچیوں کو ہراساں کرنے اور ان کو جسمانی زیادتی کے واقعات میں بھی پشاور اور پختون خوا سب سے آگے ہیں. سال 2021 کے دوران تقریباً 350 بچوں کو اس افسوسناک “صورتحال” کا سامنا کرنا پڑا ہے. رواں ماہ صرف پشاور کے ایریا میں 3 کم عمر بچیوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا. حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں واقعات کے لیے اتوار کے روز کا انتخاب کیا گیا. یہ صورت حال متعلقہ حکام کے لیے ایک چیلنج اور عوام کے لئے بہت پریشان کن ہے اس لیے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں.
