ٹانک : زمینی راستے سے منقطع ہونے والے تین دیہاتوں میں راشن پہنچا دیا گیا

ٹانک : ہیلی کاپٹر کے ذریعے زمینی راستے سے منقطع ہونے والے تین دیہاتوں میں راشن پیکجز پہنچا دئیے گئے۔  پاک فوج کے تعاون سے گرہ شادہ، گڑہ ممریز اور گڑہ جمال میں فوڈ پیکجز پہنچا دئیے گئے ہیں۔ 

سیکٹر کمانڈر تنویر حسین اور ڈپٹی کمشنر ٹانک حمید اللہ خٹک نے آپریشن کی نگرانی کی۔ دس سے زائد دیہاتوں کے زمینی اور سڑکوں کے رابطے بھاری مشینری کے زریعے بحال کر دیئے گئے  بمطابق ۔ڈپٹی کمشنر ٹانک حمید اللہ خٹک۔

کوڑ بازار ٹو کوٹ اعظم روڈ، بٹیاری،کوٹ اعظم ،لنڈوری،گومل ،نیو آبادی ،گیرا شادا سمیت متعدد روڈز کلئیر کردئیے گئے ہیں اور  ضلعی انتظامیہ نے بھاری مشینری سے تمام روڈز کی فیلنگ کرکے آمدورفت بحال کردی ہے۔ آزمائش کی گھڑی میں ڈیوٹی کے علاؤہ امداد اور سپورٹ اپکا اخلاقی اور قانونی فرض ہے ڈپٹی کمشنر کی افسران سے بات چیت۔

سوات،کمراٹ ،دیر میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن

سوات،کمراٹ اور دیر میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن. کئی گھنٹوں بعد بازیاب ہونے والے سیاحوں کا پاک فوج سے اظہار تشکر۔

خاتون سیاح کا کہنا تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہم پھنس گئے تھے لیکن پاک فوج نے ہمیں بچا لیا۔ بزرگ خا تون کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے افسر اور جوان میرے بیٹے ہیں۔ 

پاک فوج کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہوں۔ ہسپانوی سیاح بھی پاک فوج کے مشکور۔

پاک فوج کی ریسکیو ٹیم نے ہسپانوی سیاح جوڑے کو بھی ریسکیو کر لیا۔

ہسپانوی سیاح نے کہا کہ ہم کافی مشکل میں تھے،بارش بہت زیادہ تھی اور دریا میں طغیانی تھی۔ 

ہم پاک فوج کے شکر گزار ہیں۔ شکریہ پاکستان آرمی، ہسپانوی جوڑے کا اردو میں اظہار تشکر۔

ریسکیو پائلٹ نے کہا کہ 24 گھنٹوں سے وسم کافی خراب تھا لیکن مائوں،بہنوں،بچوں اور بزرگوں کے چہرے ہمارے سامنے تھے۔ محصور افراد ہماری مدد کا انتظار کر رہے تھے۔اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور دعائوں سے ہم ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوئے،پائلٹ

پاک فوج کی فلڈ ریسکیو اینڈ ریلیف سرگرمیاں جاری

پاک فوج کی فلڈ ریسکیو اینڈ ریلیف سرگرمیاں جاری ہیں۔ 

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب تک ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کے لئے ہیلی کاپٹرز کی 62 پروازیں کی جا چکی ہیں۔  پاک فوج کے 7 ہیلی کاپٹرز بشمول ایم آئی 17،پوما اور بیل 412 بیس پروازوں کے ذریعے 246 افراد کو ریسکیو کر چکے ہیں۔  7 فوجی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے 14.712 راشن اور امدادی اشیا گذشتہ 24 گھنٹوں میں تقسیم کی جا چکی ہیں۔

floods in Pakistan 2022

24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں متاثرین سیلاب میں 7845 راشن بیگز اور 1600 خیمے تقسیم کئے گئے۔  مختلف میڈیکل کیمپس میں اب تک 29205 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئیں۔  آرمی ائیر ڈیفنس کمانڈ ہیڈکوارٹرز کے تحت آرمی فلڈ ریلیف کوآرڈینیشن سنٹر فوج کی سطح پر کام کر رہا ہے۔ فارمیشنز ایریا میں امدادی اشیا کی وصولی اور تقسیم کے لئے 217 کولیکشن پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں

سیلاب سے متاثرہ خاتون سیما بی بی نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا

میرا نام سیما ہے اور شابڑہ چارسدہ کی رہنے والی ہوں۔ہمارے گھر میں آگے اور پیچھے دونوں اطرف سے جب پانی داخل ہوا تو ہم پھنس گٸے۔میرے گھر میں کوٸی مرد نہیں ہے۔میری دو سال اور ٩ سال کی دو بیٹیاں ہیں۔پاک فوج کے اہلکار وقت پر پہنچے اور ہمیں کیمپ تک لیکر آٸے انکے علاوہ کوٸی بھی نہیں آیا تھا۔پاک فوج کی طرف خوراک اور دیگر سہولیات مل رہی ہیں۔اگر پاک فوج نہ ہوتی تو پتہ نہیں کہ ہماری لاشیں اس وقت کہاں ہوتی۔

خیبر پختونخوا کے دریاؤں میں سیلاب کی صورت حال

پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ (پی ڈی ایم اے) کے مطابق دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر زیادہ انتہائ اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ نوشہرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 36 ہزار 461کیوسک تک جاپہنچی ہے۔ اسی طرح دریائے کابل میں ورسک کے مقام پر اونچے کا سیلاب ہے۔

پی ڈی ایم حکام کا کہنا ہے کہ ورسک کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1لاکھ 10 ہزار 200کیوسک ہے اسی طرح دریائے پنجکوڑہ میں دیر کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔

دیر کے مقام پر پانی کا بہاؤ 42 ہزار 198کیوسک ہے جبکہ دریائے سوات خوازہ خیلہ کے مقام پر زیادہ نچلے درجے کا سیلاب اور خوازہ خیلہ کے مقام پرپانی کا بہاؤ 29 ہزار 128کیوسک جبکہ دریائے سوات میں چکدرہ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب جبکہ چکدرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 42 ہزار 254 کیوسک ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے سوات میں منڈا ہیڈ ورکس کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے

اسی طرح منڈا ہیڈ ورکس کے مقام پر پانی کا بہاؤ 64ہزار کیوسک ہے اور دریائے سوات میں چارسدہ روڈ خیالی کے مقام پر نارمل درجے کا سیلاب ہے۔

خیالی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 61ہزار 300 کیوسک

جبکہ دریائے کابل چارسدہ ادیزئی کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔

ادیزئی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 64 ہزار 105کیوسک جبکہ چارسدہ دریائے جندی میں زیادہ درمیانے درجے کا سیلاب، بہاؤ 21 ہزار 235 کیوسک ہے۔

پدریائے سندھ اٹک خیر آباد کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔

پشاور: اٹک خیرآباد کے مقام پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 34 ہزار 600کیوسک ہے۔

سیلاب کے پیش نظرخیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی

خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ہسپتال ڈائیریکٹر کے زیر نگرانی منیجمنٹ سٹاف کی ایمرجنسی اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔

تمام سٹاف کی چھٹیاں منسوخ کی گئی جو ہفتہ اور اتور کو بھی معمول کی طرح ڈیوٹی سرانجام دئینگے۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق تمام عملے کو ہائی الٹرٹ کیا گیا۔ ہسپتال کی جانب سے میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گی جس میں ڈاکٹر،نرسسز، پیرامیڈیکل اور دیگر سپورٹ سٹاف شامل ہے ۔

نوشہرہ اور چارسدہ میں میڈیکل کیمپ لگائے گئے جہاں پر سیلاب زدگان کو مفت ادویات اور علاج معالجے کی سہولیا ت فراہم کی جارہی ہے ہسپتال میں سیلاب زدگان کے لئے 20بستروں پر مشتمل وارڈ مختص کر دیا۔

متاثرہ مریضوں کو مفت ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائے گی۔ جس کی نگرانی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکڑ محمد سراج کرئینگے۔ ہسپتال میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی نگرانی ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ظفر آفریدی خود کرئینگے۔

سیلاب کی تباہ کاریاں، امدادی کارروائیاں اور عوام کی توقعات

عقیل یوسفزئی

پاکستان کے تقریباً تمام وفاقی یونٹوں (صوبوں) کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے اور لاکھوں شہری جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہوچکے ہیں. نقصانات کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ پاک فوج سمیت متعلقہ امدادی اداروں کو متعدد مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے تاہم کوشش کی جارہی ہے کہ مزید تباہی سے ملک کو بچایا جائے اور متاثرین کی بروقت مدد کی جائے.

پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے تقریباً 1000 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق مجموعی معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 5 ارب ڈالرز ہے. خیبر پختون خوا میں جو علاقے دریائے سوات، دریائے کابل اور دریائے سندھ سمیت دوسرے چھوٹے بڑے دریاؤں کی بہاو سے بری طرح متاثر ہوگئے ہیں ان میں سوات، دیر، چترال، نوشہرہ، چارسدہ، پشاور، ٹانک، ڈی آئی خان اور صوابی شامل ہیں. صوبے میں ہفتہ کی شام تک 270 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں 70 بچے اور 40 خواتین بھی شامل ہیں. تقریباً 1600 گھروں اور مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ لاکھوں نقل مکانی پر مجبور ہیں. حکام کے مطابق ملک کے 116 اضلاع کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے. پاک فوج نے اس سنگین صورتحال میں امدادی کارروائیوں میں بنیادی کردار ادا کیا. آرمی چیف خود ھفتہ کے روز بلوچستان اور سندھ گئے جبکہ پشاور کے کور کمانڈر جنرل حسن اظہر حیات نے نہ صرف یہ کہ نوشہرہ کا دورہ کیا بلکہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں کی نگرانی بھی کی.

ہفتہ کے روز جاری کردہ معلومات کے مطابق پاک فوج نے 1200 خیمے، 5500 راشن پیکس تقسیم کئے جبکہ 25000 مریضوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کی گئیں. سوات، دیر اور متعدد دوسرے علاقوں میں ہیلی کاپٹر سروسز فراہم کرنے کے علاوہ ہزاروں افراد کو ریسکیو بھی کیا جبکہ مواصلات کی بحالی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا.

صوبہ پختون خوا میں پاک فوج کے علاوہ 1122، الخدمت فاونڈیشن اور متعدد دوسرے نجی اداروں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ایء خان اور اس سے اگلے روز وزیر اعلیٰ محمود خان نے سوات کا دورہ بھی کیا.

وفاقی حکومت نے ابتدائی طور پر متاثرین کی امداد کیلئے 38 ارب روپے جاری کئے ہیں جبکہ پاک فوج نے افسران کی سطح پر ایک مہینے کی تنخواہ جمع کرانے سمیت متعدد دوسرے اقدامات بھی کئے ہیں تاہم بحران سے نکلنے کے لیے وسائل کی دستیابی ایک بڑ چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے نہ صرف قومی اتحاد کی ضرورت ہے بلکہ صاحب ثروت لوگوں اور عالمی برادری کو بھی آگے آنا پڑے گا.

جھاں تک خیبر پختون خوا کا تعلق ہے یہاں زیادہ نقصان مختلف دریاؤں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والی تجاوزات اور ممنوعہ آراضی پر عمارتیں تعمیر کرنے کی غیر قانونی رویے کے باعث ہوا حالانکہ کے پی اسمبلی اس ضمن میں واضح قانون سازی کرچکی ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے بھی متعدد بار تجاوزات کے خاتمے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف فیصلے دیے ہیں. مگر بعض سرکاری اداروں کی نااہلی اور کرپشن سمیت مافیاز کی موجودگی کی وجہ سے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا دکھائی دے رہا. سال 2010 کے سوات سیلاب کے بعد مافیاز کو انہی جگہوں پر پھر سے تعمیرات کی اجازت دی جاتی رہی جھاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اور اربوں کی سرمایہ کاری ہوٹلز وغیرہ کے شعبے میں کی گئی مگر کسی نے اس کا 2010 کے تجربے کے باوجود کوئی نوٹس نہیں لیا اور حالیہ سیلاب نہ صرف درجنوں قیمتی عمارتوں کو بہا کر لے گیا بلکہ اربوں کی سڑکوں، پلوں اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا. یہی صورت حال دیر، چترال، نوشہرہ اور ڈی آئی خان میں بھی دیکھنے کو ملی. اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کنسٹرکشن مافیا اور اس کے درپردہ سرکاری اداروں کا راستہ روک دیا جائے اور جو لوگ تجاوزات کو قانونی قرار دینے میں ملوث رہے ہیں ان کو سخت سزائیں دی جائیں ورنہ ہر سال اسی طرح کی تباہی آتی رہے گی اور ہم جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہوتے رہیں گے.