Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, March 10, 2025

گھاگ سیاستدان

وصال محمد خان
گھاگ سیاستدان
پاکستان تحریک انصاف نے کل ملاکرخیبرپختونخوا میں 9سال اور5ماہ تک حکومت کی2013 ء انتخابات کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کوساتھ ملاکر پرویزخٹک جیسے”گھاگ اورتجربہ کارسیاستدان“ کی نگرانی میں حکومت قائم کی گئی پرویزخٹک جنہوں نے آج تک سیاست میں نہ ہی کوئی ہمالیہ سرکیاہے اورنہ ہی کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے ہیں بس جوڑتوڑکے ماہرسمجھے جاتے ہیں جوڑتوڑمیں بھی انکے کریڈٹ پرکوئی بڑی ڈیل موجودنہیں وہ آفتاب شیرپاؤکی ماتحتی میں کام کرچکے ہیں اورآفتاب شیرپاؤنے 1988ء میں آئی جے آئی کے درجن بھرارکان توڑکر اس وقت اپنی حکومت بچالی جب اے این پی نے وعدے پورے نہ ہونے پرصوبائی حکومت چھوڑدی تھی،دوسری مرتبہ1993ء میں آفتاب شیرپاؤنے بے نظیربھٹوکی وفاقی حکومت کے تعاون سے اے این پی اورن لیگ کے دوچار ارکان توڑکرپیرصابر شاہ کی حکومت کاخاتمہ کیاان دونوں واردات کے دوران پرویزخٹک پیپلزپارٹی کاحصہ اورآفتاب شیرپاؤکے ساتھی تھے انہوں نے اس جوڑ توڑمیں شائدہی کوئی کرداراداکیاہوکیونکہ اس وقت انکی سیاست نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے اوروزار ت حاصل کرنے تک محدودتھی 2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے نوشہرہ کی نظامت اعلیٰ حاصل کی اس دورران جب قاف لیگ اورجنرل مشرف کا سورج نصف النہارپرتھاانہوں نے پیپلزپارٹی کوچھوڑکرآفتاب شیرپاؤکیساتھ پینگیں بڑھالیں 2008ء کاالیکشن انہوں نے آفتاب شیرپاؤکے نشان پرلڑکرکامیابی حاصل کی اورآصف زرداری کوتعاون کی یقین دہانی کرواکرحیدرہوتی حکومت میں ایری گیشن کی وزارت حاصل کی اس وزارت میں انہیں نجانے کیاچارم نظرآ تاہے کہ انہوں نے محمودخان حکومت میں بھی اپنے بھائی لیاقت خٹک کیلئے یہی محکمہ منتخب کیا2011ء میں مینارپاکستان جلسہ کے بعدجب دنیاجہاں کے سیاسی خانہ بدوش تحریک انصاف کارخ کررہے تھے توپرویز خٹک نے بھی وزارت سے مستعفی ہوکرشمولیت اختیارکی اسلام آبادمیں شمولیت کے موقع پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے شدیداحتجاج کیایہاں تک کہ ان پرپتھراؤ بھی کیاگیامگرانہوں نے ڈھیٹ بنکرشمولیت اختیارکرلی۔ 2012ء میں تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن میں وہ صوبائی صدارت کے امیدواربنے اور اپنے وووٹرزکوچاردن تک پشاورکے ایک نجی ہوٹل میں ٹھہرایا تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن اسدقیصرکوصوبائی صدر دیکھناچاہتے تھے اس موقع پراعظم سواتی نے ان کاراستہ روکااوراپنی تجوریوں کے منہ کھول کراسدقیصرکیلئے ووٹ خریدے جس کے نتیجے میں اسدقیصرنے میدان مارلیا۔پرویزخٹک نے عمران خان کے سامنے احتجاج کیاجس پرانہیں مرکزی جنرل سیکرٹری نامزدکیاگیا۔2013ء انتخابات میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوامیں کامیابی حاصل کی تووزارت اعلیٰ کی ہماانکے سربیٹھ گئی انہوں نے اپنی حکومت کے دوران دوکام دل لگاکرانجام دئے اول تحریک انصاف کی قومی سیاست کیلئے خیبرپختونخواکاپیسہ پانی کی طرح بہایا126دن والے دھرنے کیلئے پٹرول،ڈیزل اورخوراک فراہم کرنے کابیڑاانہوں نے اٹھایااشیائے خوردنی اورتیل سے بھری گاڑیوں کی ویڈیوزسوشل میڈیاپروائرل ہوئیں۔ان کادوسراعظیم کارنامہ یہ ہے کہ اپنے خاندان کے دستیاب ہرخاص وعام کوایم پی اے،ایم این اے بنوایا انکے داماد اوربھانجے نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے دومرتبہ رکن بنے،بھتیجے احدخٹک تحصیل ناظم نوشہرہ،بیٹے ابراہیم خٹک ممبرصوبائی اسمبلی،دوسرے صاحبزادے اسحاق خٹک تحصیل ناظم نوشہرہ،بھائی لیاقت خٹک کوپہلے ضلعی ناظم نوشہرہ اوربعدازاں ایم پی اے بنوایا،خاندان کی خواتین میں سے ایک بھتیجی کوایم پی اے اورزوجہ محترمہ،بھابی کی ہمشیرہ کوایم این اے بنوایاسوات اورلاہور والی شریک حیات کے بھتیجوں کوبالترتیب ڈی سی نوشہرہ تعینات کیااورچار،چارسال تک وہ اس اہم عہدے پرتعینات رہے موروثیت کے خلاف گلا پھاڑنے والے عمران خان کی ناک کے نیچے اقرباپروری کی بدترین مثالیں قائم ہوئیں بے جامداخلت سے محکمانہ کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ایک ڈی پی او نے واشگاف الفاظ میں انکی سیاسی مداخلت کے سبب چارج سنبھالنے سے معذ رت کرلی انکے دورِوزارت اعلیٰ میں سونا می ٹری،مالم جبہ،ہیلی کاپٹرکاغیرقانونی استعمال اوربی آرٹی میں کرپشن جیسے بڑے سکینڈلزسامنے آئے،نوشہرہ میں دریائے کابل کے پشتوں میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں اور رولزاینڈریگولیشنزکی سنگین خلاف ورزیاں پائی گئیں خیبربینک سکینڈل سامنے آیاجسے بھونڈے اندازمیں دبادیاگیا۔احتساب کمیشن کے قیام اورسٹرکچرمیکنگ پر30ارب روپے خرچ ہوئے مگراسے حکومتی ارکان پرہاتھ ڈالنے کے جرم میں سرے سے ختم ہی کردیاگیااور مرتب شدہ ریکارڈکوبھی تلف کردیاگیاانکے خلاف اگرصرف تین معاملات میں شفاف انکوائری ہو یعنی نوشہرہ دریائے کابل کے پشتوں (تخمینہ لاگت 36ارب روپے)احتساب کمیشن(30ارب روپے) اوربی آرٹی (تخمینہ لاگت نامعلوم کیونکہ اسکے حوالے سے 58ارب،70ارب اورکبھی 100ارب کی باتیں سامنے آرہی ہیں)توچشم کشاحقائق سے پردہ اٹھنے کی قوی توقع ہے۔انکی وزارت اعلیٰ کے دران سینیٹ الیکشن میں 22 ارکان سلپ ہوئے جن میں سے چارنے الزام لگایاکہ انہیں سی ایم نے رقم وصول کرنے کوکہا انہیں 22دن بعدیادآیاہے کہ 9مئی کوتحریک انصاف کی طرف سے قابل مذمت کرداراداکیاگیا نجانے اتنے دن یہ کہاں مراقبہ فرمارہے تھے اورپھرانہوں نے صرف عہدہ چھوڑاہے اسدقیصرجوپارٹی میں انکے حلیف تصورکئے جاتے ہیں وہ بھی اس موقع پرمہربا لب تشریف فرما تھے انکی سیاست بندگلی سے دوچار ہوچکی ہے۔وہ کہاں  جائیں، کیاکریں اورگومگوکی کیفیت میں مبتلاہیں اگرانکے قائدجیل جاتے ہیں یانا اہل ہوتے ہیں توانہیں ڈرائیونگ سیٹ اوراہم پوزیشن مل سکتی ہے مگرکسی اورجماعت میں انہیں مختار کل والی پوزیشن ملنامشکل ہے کچھ تجزیہ کارانہیں پیپلزپارٹی کی جانب پلٹتا ہوادیکھ رہے ہیں انکی سیاست موقع پرستی سے عبارت ہے اگرموقع پرست کوگھاگ سیاستدان کہتے ہیں تویقیناًوہ گھاگ سیاستدان ہیں۔انکی طرزِسیاست اورحکومت نے ساڑھے نوسال میں صوبے کی معیشت،معاشرت،سیاست اورطرزِ حکومت پربدنما نقوش چھوڑے ہیں جس کے سبب 2013ء میں صرف سوارب روپے کاقرضدارصوبہ اب تقریباًایک ہزارارب روپے کاقرضدارہوچکا ہے اب وہ کبھی جہانگیرترین سے خفیہ رابطے کررہے ہیں توکبھی قوم پرستی کالبادہ اوڑھنے کی خبریں آرہی ہیں درحقیقت گھاگ سیاستدان اِن ٹربل ہیں اورنئے سیاسی ٹھکانے کی تلاش میں ہیں

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket