F5wwz0MbcAANysj

ایشیاکپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی

ایشیاکپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی

وصال محمدخان

کرکٹ بلاشبہ پاکستان کامقبول ترین کھیل ہے وطن عزیرکے طول وعرض میں جہاں بھی بچے بڑے کھیلتے نظرآئیں تو وہ کرکٹ ہی کھیلتے ہیں ۔اسی بین الاقوامی طورپرجہاں بھی کرکٹ کھیلی جارہی ہو توپاکستانی قوم ضروراس سے خودکوباخبررکھتے ہیں ۔ جب کہیں پاکستانی ٹیم کے میچزہورہے ہوں توملک بھرمیں بازاریں اور مارکیٹیں ویران ہوجاتی ہیں اورشائقین کرکٹ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ خصوصا جب پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی کامظاہرہ کرے تونہ صرف ملک۔بھر میں اس پرتبصروں کابازارگرم ہوجاتاہے بلکہ جیت کی خوشی میں مٹھائیاں کھائی اورکھلائی جاتی ہیں اورہوائی و آتش بازی کے ذریعے بھی جذبات کااظہارکیاجاتاہے ۔ ایشیاکپ 2023کی میزبانی اگرچہ پاکستان کے حصے میں آئی تھی مگربھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کے باعث کچھ میچزسری لنکامنتقل ہوئے ۔بھارت کی جانب سے دیگرشعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی ہٹ دھرمی کاروئیہ اپنایاجاتاہے حیرت انگیزطورپربھارت پاکستانی ٹیم کیساتھ دنیاکے کسی گراونڈ پرمیچ میچزکھیل لیتاہے مگرپاکستان میں آکرکھیلنے سے اسے موت پڑتی ہے بھارت کی ہٹ دھرمی پرمبنی اس روئیے سے نہ صرف کرکٹ کابے پناہ نقصان ہوتاہے بلکہ شائقین کرکٹ کے چہرے بھی مرچھاجاتے ہیں جب ساری دنیاکی ٹیمیں پاکستان آکرکھیلتی ہیں ،یہاں انہیں۔

کسی قسم۔کی سیکیورٹی خطرات کاسامنانہیں ہے ،یہاں کے کراوڈکاروئیہ بھی ہرٹیم۔کیلئے دوستانہ ہوتاہے اور یہاں کرکٹ کھیلنے سے آمدن بھی اچھی ہوتی ہے توبھارت کوفضول ضد اورہٹ دھرمی پرمبنی روئیہ اپنانے کی کیاضرورت پیش آتی ہے کہ وہ دنیابھرمیں توکہیں بھی اپنی ٹیم۔بھیجنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتامگرپاکستان کے میدانوں میں کھیلنے سے راہ فراراختیارکرتاہے ۔ بھارت کایہ بچکانہ روئیہ کب تک برداشت کیاجائے گا؟کیااب وقت نہیں۔آیاکہ آئی سی سی بھارت کودوٹوک وارننگ جاری کہ وہ یاتوتعصب اورہٹ دھرمی پر مبنی روئیہ ترک کرے یاپھراسے بھی ساوتھ افریقہ کی طرح پابندیوں میں۔جکڑاجائے ۔

ناجانے آئی سی سی جیسی تنظیم بھارت کواتنی رعایتیں کیونکردیتاہے ؟حالیہ اہشیاکپ میں اگربھارت رعایتی ہٹ دھرمی کامظاہرہ نہ کرتاتو کئی اہم۔میچ یوں۔بارش کی نذرنہ ہوتے ۔ہٹ دھرمی پرمبنی اس روئیے سے نہ صرف آئی سی سی کوبلکہ پاکستان اورانڈین۔کرکٹ بورڈزکوبھی بے پناہ مالی نقصان۔کاسامناکرناپڑا۔ سری لنکامیں۔کھیلے گئے میچزاگرپاکستان۔میں ہوتے تو یقیناگراونڈزمیں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی جس سے آمدن بھی اچھی خاصی ہوتی ،کرکٹ کوفروغ بھی ملتااور شائقین کے ارمانوں پربھی یوں اوس نہ پڑتی ۔ مگر انتہاپسند مودی کی بے جاضداورہٹ دھرمی سے کرکٹ کابے پناہ نقصان ہوا ۔کئی اہم اورضروری میچزملتوی ہوئے ،برابری کی بنیادپرپوائنٹس تقسیم کرنے پڑے یاپھر سرے سے ان کاانعقادہی نہ ہوسکاجس پربین الاقوامی مبصرین نے بھی کڑی تنقیدکی مگرہندو تواکے پیروکاروں کو کھیل سے کیاواسطہ اور کوئی معقول بات سمجھنے سے کیاسروکار؟انہوں نے توبس من مانی کرنی ہے اورانتہاپسندی کوفروغ دیناہے ۔

پاکستان کرکٹ بورڈکو اس ناپسندیدہ روئیے کے خلاف متعلقہ فورمزسے بات کرنی ہوگی تاکہ کرکٹ کامزیدنقصان نہ ہو۔ جہاں تک ایشیاکپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کی بات ہے تو گرہن شرٹس کاآغاز انتہائی اچھااورمتاثرکن تھا اور شروع کے میچزسے ایسالگ رہاتھاکہ پاکستانی ٹیم ان بیٹیبل ایشیاکپ کافاتح ٹھہرے گا بھارت کے خلاف راونڈ میچ میں بھی اگرچہ بیٹنگ کواپنے جوہردکھانے کاموقع نہ مل سکامگر باولنگ میں پاکستانی باولرزنے انڈین بیٹنگ کوکھل کرکھیلنے کاموقع نہ دیا اور اسے 266کے معمولی ٹوٹل تک محدودرکھا ۔ اگرمیچ بارش سے متاثر نہ ہوتااور پاکستانی بیٹرزکوکھیلنے کاموقع مل جاتاتویقینابھارتی سورما خاک چاٹنے پرمجبورہوجاتے مگرشومئی قسمت کہ بارش نے پاکستانی شائقین کے ارمانوں کو تہس نہس کیااورمیچ کافیصلہ برابری پرہوگیا۔ سپرفورمرحلے میں اگرچہ بھارت کیساتھ میچ ون ڈے کی بجائے ٹو ڈے میچ میں بدل دیاگیا مگراس کانتیجہ پاکستانی شائقین کیلئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں تھا ۔

پہلے دن پاکستانی باولرزاگرچہ زیادہ کامیاب نہ رہے فیلڈرز نے کئی کیچز گرائے ،کئی اضافی رنزدئے اور لائن ولینتھ کاخیال نہیں رکھاگیامگردوسرے دن توپاکستانی سورماجیسے کرکٹ کھیلناہی بھول گئے ۔ باولرزسے باولنگ نہیں ہورہی تھی دوباولرزتوان فٹ ہوکرباہرچلے گئے جبکہ جو رہ گئے انکی باولنگ کسی طور بین الاقوامی معیار کی نہیں تھی گرین شرٹس کی باولنگ سے لگ رہاتھاجیسے وہ کوئی نمائشی یادوستانہ میچ کھیل رہے ہیں یاانڈین بیٹرزکو بیٹنگ پریکٹس کروائی جارہی ہے ۔ کسی باولرنے اپنی معیارکے مطابق باولنگ نہیں کی ،کسی فیلڈر نے پھرتی اورمستعدی کامظاہرہ نہیں کیااور کسی بیٹر نے کریزپرجم کرکھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ یوں محسوس ہورہاتھاکہ تمام بیٹرزجلدی میں ہیں اورڈریسنگ روم میں پڑی چائے ٹھنڈی ہورہی ہے ۔ ان سے بہترہوتاکہ کوئی جونئیرٹیم بھارت کے مقابلے میں اتاری جاتی ۔ دنیاکے بہترین اور مہنگے ترین کوچز کابیڑہ گرین شرٹس کودستیاب ہے ،سیلیکشن کمیٹی دنیائے کرکٹ کے بڑے ناموں سے مزین ہے ،تنخواہیں اورفیسیں تھوک کے حساب سے لی اوردی جارہی ہے مگرٹیم کامعیارجواس ایک میچ سے ایکسپوزہوا وہ کسی کلب سطح کی ٹیم سے بھی کمترتھا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیم کاہرفرداپنی ذمہ داریاں پہچانے ، دل سے کھیلے ،خودکوسٹارنہ سمجھے اور نیچرل گیم کھیلیں اسی طرح کوچزجوبیڑاساتھ ہے وہ ماحول کے مطابق کھلاڑیوں کی کوچنگ کرے انہیں گروم کرے اورپریشربرداشت کرنے کے قابل بنائے ۔

سیلیکشن۔کمیٹی کاکام کیاہے ؟یہی کہ سٹارزکو ٹیم۔میں۔جمع کرے؟قطعانہیں بلکہ سیلیکشن کمیٹی کو ہرکھلاڑی کامتبادل تلاش کرناہوگاایک ایک پوزیشن۔کیلئے کئی کئی کھلاڑی دستیاب ہونے چاہئیں جب ہم۔بار بارسنتے ہیں کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں توپھرکمی کس چیز کی ہے اورکیوں ہے؟اس پرغوروخوض کی ضرورت ہے اور ایک ایسی ٹیم ترتیب دینے کی ضرورت ہے جوہرقسم کے ماحول اور موسم میں اپنی سوفیصد کارکردگی دکھائے ۔ حالیہ ایشیاکپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کسی صورت سراہنے کی قابل نہیں بلکہ مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ شائقین کرکٹ کے چہروں پرمسکراہٹ بکھرسکے اوردنیامیں پاکستان کانام روشن ہو

911

ناین الیون کا حملہ، 22 سالہ تجربہ اور دنیا پر اس کے اثرات

ناین الیون کا حملہ، 22 سالہ تجربہ اور دنیا پر اس کے اثرات
عقیل یوسفزئی

9 الیون کو وقوع پذیر ہوئے 22 برس گزر گئے ہیں. امریکی اور نیٹو فورسز نے اس حملے کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا. امریکہ پر ہونے والے حملوں میں کوئی ایک بھی افغان شامل نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کی اکثریت عربوں کی تھی تاہم افغانستان پر حملے کے لئے دو جواز ڈھونڈے گئے. ایک یہ کہ القاعدہ نے اس کی پلاننگ افغانستان میں کی اور دوسرا یہ کہ طالبان حکومت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی حوالگی سے انکاری ہے. دستیاب معلومات کے مطابق امریکہ ناین الیون کے واقعہ سے قبل افغانستان پر حملہ کرنے کی پلاننگ کرچکا تھا اور یہ اطلاع امریکہ نے سعودی عرب کے ایک اہم ترین وزیر ترکی الفیصل کے ذریعے ملاعمر اور ان کے ساتھیوں کو پہنچا دی تھی. ترکی الفیصل نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق امریکہ ہر صورت میں اسامہ بن لادن کی گرفتاری چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے پاکستان پر نہ صرف دباؤ تھا بلکہ پاکستان کے بعض اہم عہدے داروں نے عملی کوشش بھی کی تھی جن کو ملا عمر، ٹیم نے “ناں” کہا تھا.
ترکی الفیصل کے علاوہ ملاعمر کے بعض ساتھیوں اور متعدد اہم علماء نے بھی مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرکے مجوزہ حملے سے افغانستان کو بچایا جائے مگر ملا عمر نے دو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسامہ بن لادن خود افغانستان سے چلا جانا چاہے تو وہ ان کو نہیں روکیں گے مگر ان کو نکالنے کا اقدام نہیں اٹھائیں گے کیونکہ ان کے بقول اسامہ بن لادن نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی اور اسلام کے علاوہ پشتونولی کی رو سے بھی پناہ لینے والے کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا.یہی بات انہوں نے قندھار میں ہونے والی ملاقات میں ترکی الفیصل کو بھی بتادی.
اس سے قبل امریکہ میں “تہذیبوں کے تصادم” کی تھیوری پیش کی جاچکی تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کو مسلمانوں یا مسلم ممالک کے خلاف جنگ یا مزاحمت کرنی چاہیئے.
ناین الیون کے واقعات نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کردیا اور اس نے نہ صرف افغانستان، عراق اور شام پر چڑھائی کی بلکہ پاکستان اور چند دیگر ممالک بھی اس لہر اور جنگ کی لپیٹ میں آنے لگے. اس صورتحال نے علاقائی سطح پر شدید بدامنی اور کشیدگی کو جنم دیا جس کے منفی اثرات اب بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں.
امریکہ نے 20 برسوں تک یہ جنگ لڑی جس کے بدلے میں اسے 4 سے 6 ٹریلین ڈالرز کا مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کے تقریباً 9000 فوجی بھی نشانہ بنے. اس کے بدلے میں کہا گیا کہ اس جنگ کے باعث امریکہ نے القاعدہ کو کمزور کرکے لاحق ممکنہ خطرات کو ختم کیا. تاہم عجیب صورتحال اس وقت بنی جب اسی امریکہ نے سال 2020 کے دوران افغان طالبان سے مذاکرات شروع کیے اور ایک لمبی پراسیس کے ذریعے دوسرے فریق (طالبان) کی شرائط پر افغانستان ان کے سپرد کردیا.
اگست 2021 میں طالبان پھر سے اسی افغانستان پر پھر سے قابض ہوگئے جن کی حکومت امریکہ نے 22 برس قبل بہت بڑی قیمت ادا کرکے ختم کی تھی.
اس تمام صورتحال کا ایک پہلو تو یہ سامنے آئی کہ القاعدہ کمزور ہوگئی تاہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ ردعمل میں داعش جیسی ایک اور خطرناک، طاقتور اور شدت پسند قوت سامنے آئی جبکہ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کی قوت میں بھی اضافہ ہوا جس نے 15 اگست 2021 کے بعد پاکستان پر تقریباً 4000 حملے کئے اور حملوں کی یہ لہر 2023 کے دوران بھی جاری رہی.
اگر چہ امریکہ کے مطابق القاعدہ ختم یا کمزور ہوچکی تاہم ایک سابق اہم امریکی عہدیدار جنرل مکینزی نے 11 ستمبر 2023 کو ایک انٹرویو میں بعض دوسرے انکشافات کے علاوہ القاعدہ کے مستقبل اور کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی نئی صف بندی تیزی سے جاری ہے اور یہ کہ افغان طالبان اور ان کی حکومت کے ساتھ القاعدہ کے نہ صرف یہ کہ قریبی روابط قائم ہیں بلکہ فریقین کے درمیان نظریاتی اور تنظیمی ہم آہنگی کے علاوہ “خاندانی” تعلقات بھی موجود ہیں. جنرل مکینزی کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کی موجودگی اور طوالت القاعدہ سمیت بعض دیگر تنظیموں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگی.
تلخ حقائق تو یہ بھی ہیں کہ ان 22 برسوں کے تجربات اور سرمایہ کاری کے باوجود جہاں امریکی مفادات اس اہم خطے میں محفوظ نہیں کہلائے جاسکتے وہاں اس نے بعض اہم اتحادیوں کو بھی بدگمان کردیا ہے اور بہت سے اتحادی چین اور روس کے قریب ہونے لگے جن میں پاکستان بھی شامل ہے حالانکہ پاکستان سال 1979 سے لیکر فروری 2020 کے دوحہ ایگریمنٹ تک نہ صرف امریکہ کا مستقل اتحادی بن کر اس کے ساتھ مل کر افغانستان کے معاملات میں براہ راست امریکہ کا پارٹنر بنا رہا بلکہ ناین الیون کے بعد یہ بوجوہ مسلسل حالت جنگ سے بھی دوچار رہا.
، اقدامات، اثرات اور نتائج جو بھی ہو اس تمام دور کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ان 22 برسوں کے نتیجے میں نہ تو علاقائی بدامنی میں کمی واقع ہوئی، نہ امریکہ کے توسیع تر مفادات حاصل ہوسکے اور نہ ہی عالمی امن کو یقینی بنایا جاسکا.بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علاقائی اور عالمی امن کو درپیش چیلنجز اور خطرات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے تو غلط نہیں ہوگا