wana

جنوبی وزیرستان میں تعلیمی آگاہی سیمینار کا انعقاد

وانا :ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے ضلع لوئر جنوبی وزیرستان میں محکمہ امور نوجوانان، ڈسٹرکٹ یوتھ آفس ساؤتھ وزیرستان کی جانب سے ڈوگ سٹوڈنٹس سوسائٹی نے تعلیم کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا۔ تعلیمی آگاہی سیمینار ایمپریل پبلک سکول ڈوگ میں منعقد ہوا۔

سیمینار کے مہمان خصوصی ڈسٹرکٹ یوتھ آفیسر جنوبی وزیرستان سردار علی وزیر تھے، اس موقع پر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نور اللہ وزیر، معروف عالم دین مولانا نیک محمد وزیر بھی انکے ہمراہ تھے۔ سیمینار میں قبائلی عمائدین، علماء کرام، سیاسی وسماجی شخصیات، طلباء و طالبات سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی ڈسٹرکٹ یوتھ آفیسر سردار علی وزیر نے کہا کہ تعلیم کے میدان میں خوشگوار ماحول لانے کیلئے ہم سب کو مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو وہ علم حاصل کرنے سے بنتا ہے، کیونکہ تعلیم یافتہ شخص کو کوئی غلط راستہ پر نہیں دھکیل سکتا، حالانکہ تعلیم زندگی کا ایک بہترین ہُنر ہے انسان بہتر تعلیم حاصل کرنے سے اچھائی اور بُرائی کی تمیز کرسکتا ہے، تاہم معیاری تعلیم کیلئے پہلی شرط محنت ہے۔

ڈسٹرکٹ یوتھ آفیسر نے کہا کہ نظام تعلیم کی بہتری کیلئے مشترکہ کوششیں بہتر سود مند ثابت ہوسکتی ہے، انہوں نے ڈوگ سٹوڈنٹس سوسائٹی کو یقین دلایا کہ تعلیم آگاہی مہم کیلئے ڈسٹرکٹ یوتھ آفس آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، اور کھڑا رہے گی،

سیمینار کو اس نکتہ پر سمیٹا گیا، کہ معاشرہ معیاری تعلیم کے حصول سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے، اور اس کیلئے سب ملکر اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے سیمینار سے سپیریئر سٹی ماڈل سکول کے پرنسپل زیرمحمد وزیر اور زُبیر کے کے وزیر ودیگر اہم شخصیات نے خطاب کیا اور تعلیم کی اہمیت اور بچوں کے روشن مستقبل پر روشنی ڈالی، سیمینار سے ڈوگ سٹوڈنٹس سوسائٹی کے چیئرمین زاہد وزیر نے کہا، کہ ہمارا مقصد تعلیم وتربیت ہے، معیاری تعلیم کے حصول کیلئے ہم سب کو لگن سے کام کرنا ہوگا۔

نجی سکول کے پرنسپل ہمایون وزیر نے کہا کہ علاقے میں نجی سکولز کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، نجی سکولوں نے تعلیم کے میدان میں ایک مثبت اور مثالی تبدیلی لائی ہے۔

معروف عالم دین مولانا نیک محمد وزیر نے کہا کہ قرآنی و عصری علوم لازم و ملزوم ہے، جس سے دنیا و آخرت دونوں سنوار جاتے ہیں، لہذا معیاری علم و تعلیم کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،

مقررین نے یہ بھی کہا کہ بہتر ماحول اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے پڑھائی پر توجہ نہیں دے رہے، لہذا اپنے بچے اور بچیوں کو بہتر ماحول فراہم کرنا ہوگا تب اچھی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوگی اور معیاری تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کی ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ پر تنقید کیوں؟

مولانا فضل الرحمان کی ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ پر تنقید کیوں؟
عقیل یوسفزئی
پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں تاہم اس صورتحال کا راستہ روکنے کے لیے لازمی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک مشترکہ کمیشن قائم ہو اور امارات اسلامیہ سمیت بعض دیگر فریقین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں. اگر حملوں کی یہ لہر جاری رہی تو پختون خوا میں الیکشن کا انعقاد خطرے سے دوچار ہوجائے گا.
نامور صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کو ایک انٹرویو میں مولانا نے کہا کہ خطے میں امریکی انخلاء کے بعد جنگ تو ختم ہوگئی ہے مگر جنگجو ختم نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے لیے نیا محاذ کھول دیا ہے. اسلام کا دفاع کرنا علماء کرام کا کام ہے بندوق بردار جنگجوؤں کا نہیں تاہم گزشتہ دو ڈھائی برسوں کے دوران بدامنی اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس کا پاکستان کے اداروں، قایدین اور علماء کے علاوہ امارات اسلامیہ (افغان عبوری حکومت) کو بھی نوٹس لینا چاہئے.
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ٹانک سے لیکر باجوڑ اور چترال تک پختون خوا کے بہت سے علاقوں میں نہ صرف حملے جاری ہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ بھی روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہے. گزشتہ کچھ عرصے میں جہاں ہماری پارٹی پر باجوڑ میں حملہ کیا گیا جس میں 73 کارکن اور لوگ شہید ہوئے وہاں اس عرصے میں ہمارے 19 رہنماؤں اور کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا. یہ صورت حال اس قدر خطرناک ہے کہ سیاسی قوتوں کو صوبے میں اگلے الیکشن کے انعقاد پر بھی تشویش لاحق ہوگئ ہے. ہم کھل کر الیکشن کی مخالفت اس لیے نہیں کررہے کہ بعض لوگ اس سے یہ تاثر لیں گے کہ ہم اس بہانے الیکشن سے بھاگ رہے ہیں”
ایک اور سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس صورت حال سے دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان الیکشن کے انعقاد کے علاوہ تجارت، سرمایہ کاری، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اور سیکورٹی کے معاملات سلجھانے اور نمٹانے کا بھی قابل نہیں ہے اس لیے لازمی ہے کہ دونوں ممالک ایک مشترکہ کمیشن قائم کرکے اس صورتحال کا کوئی مستقل حل نکال لیں اور تنازعات کے حل کیلئے بھی کوئی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔