Polio

خیبرپختونخوا میں انسداد پولیو مہم جولائی 2024 کا اجراء کر دیا گیا

خیبرپختونخوا میں انسداد پولیو مہم جولائی 2024 کا اجراء کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین خان گنڈاپور نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر مہم کا باضابطہ اجراء کیا۔ پانچ روزہ انسدادِ پولیو مہم یکم جولائی سے 5 جولائی تک جاری رہے گی۔ مہم کے تحت صوبے کے چھ مکمل اضلاع صوابی ،سوات، ٹانک ، شمالی وزیرستان ، جنوبی وزیرستان لوئر، اور جنوبی وزیرستان اپر میں انسداد پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔ اسی طرح پانچ اضلاع کی مخصوص یونین کونسلوں میں بھی یہ مہم چلائی جائے گی ، ڈی آئی خان کی 22 یونین کونسلز، پشاور کی تین جبکہ کرم، بنوں اور لکی مروت کی ایک ایک یونین کونسل شامل ہیں۔

مہم کے تحت مجموعی طور پر 12 لاکھ 99 ہزار بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے. اس مقصد کےلئے 9,921 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں. پولیو ٹیموں کی حفاظت کےلئے تقریباً 15 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہونگے. حوصلہ افزا بات ہے کہ رواں سال اب تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا. ہم نے ملک اور خیبرپختونخوا کو پولیو فری بنانا ہے. پولیو وائرس کا خاتمہ ہماری حکومت کی بھی اہم ترجیحات میں شامل ہے. والدین سے اپیل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے ضرور پلائیں اور انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچائیں۔ صوبے کو پولیو وائرس سے پاک کرنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کرنا ہو گا. فرنٹ لائن پولیو ورکرز ہمارے ہیرو ہیں، والدین گھر گھر جانے والے پولیو ورکز سے مکمل تعاون کریں. پولیو ڈیوٹی کے دوران اپنی جانیں دینے والے پولیو ورکرز اور فورسز کے اہلکاروں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں. وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

کے ایم یو: بی ایس نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے لئے نئی امتحانی پالیسی کا اعلان

کے ایم یو نے بی ایس نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے سمسٹر پروگراموں کے لئے نئی امتحانی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) نے اپنے بی ایس نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز پروگراموں کے امتحانات کی شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ کی سفارشات کی بنیاد پر، کے ایم یو اب سمسٹر سسٹم کے فائنل امتحانات مخصوص امتحانی سنٹروں میں کروائے گا جو کہ خیبر پختونخوا کے پانچ علاقوں میں کے ایم یو کے ذیلی اداروں کے ڈائریکٹرز کی نگرانی میں ہوں گے۔

کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز سوات، انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اسلام آباد، کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کوہاٹ، کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز ہزارہ، اور مرکزی کیمپس کے ایم یو پشاور کے علاقائی ڈائریکٹرز امتحانی عمل کا تمام تر انتظام کریں گے۔ ان کی ذمہ داریوں میں پیپر سیٹنگ، کلینکل امتحانات کا انعقاد اور نتائج کی تدوین شامل ہوں گی۔

اسی طرح ایک بنیادی کمیٹی جس میں ڈائریکٹر اکیڈمک اور ایڈمش ڈاکٹر ظللی ہما ، رجسٹرار کے ایم یو مسٹر انعام اللہ خان وزیر، کنٹرولر امتحانات پروفیسر ڈاکٹر سلیم گنڈاپور، ڈائریکٹر کیو ای سی ڈاکٹر آسیہ بخاری، ڈاکٹر شیراز، ڈاکٹر ماریہ اسحاق خٹک، محمد اسلام ایڈیشنل ڈائریکٹر اکیڈمکس اور ساحر عتیق ڈپٹی ڈائریکٹر اکیڈمکس شامل ہیں، تشکیل دی گئی ہے تاکہ امتحانات کی مرکزی عمل درآمد کے ہموار ارتکاب کے لیے واضح طریقہ کار کی نشاندہی کی جا سکے۔

ایک اور جائزہ اور مانیٹرنگ کمیٹی جس میں ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ پروفیشنز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ڈاکٹر بریخنا جمیل، ڈاکٹر نوشاد، ڈاکٹر حمیرا، ڈاکٹر عدنان علی شاہ، عثمان اقبال، ڈپٹی ٹریجرر، محمد طیب ڈپٹی ڈائریکٹر انسپکشن اینڈ ایپیلئشسش، شہزاد خان ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ٹی شامل ہیں، علاقائی سیلز ڈائریکٹرز کے ساتھ قریبی تعاون میں کام کریں گے اور امتحانی عمل کو معیاری بنانے اور اعلیٰ ترین تعلیمی دیانت کے معیارات کو برقرار رکھنے کا ہدف رکھیں گے۔

terrorist bounty set in millions by KP Govt

خیبرپختونخوا: 2 ہزار سے زائد دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 3 ارب 31 کروڑ روپے مقرر

حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے 2 ہزار سے زائد دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 3 ارب 31 کروڑ روپے مقرر

خیبرپختونخوا حکومت نے ریاست کو انتہائی مطلوب 2 ہزار251 دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 3 ارب31 کروڑ 71 لاکھ روپے مقرر کر دی ہے۔ محکمہ داخلہ نے صوبے کے 28 اضلاع میں 2019 سے اب تک 2251 انتہائی مطلوب افراد کے سروں کی قیمت 3 ارب 31 کروڑ71 لاکھ روپے مقرر کی ہے جن میں 1200 سے زائد انتہائی مطلوب دہشتگرد ہلاک اور 975 دہشتگردوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ محکمہ داخلہ کے دستا ویز کے مطابق 2019 میں انتہائی مطلوب میں 532 دہشتگردوں کی فہرست مرتب اور ان کے سروں کی قیمت 79 کروڑ 45 لاکھ روپے مقرر کی گئی، اگلے سال یعنی 2020 میں 197 دہشتگردوں کو انتہائی مطلوب قرار دیکر ان کے سر کی قیمت 83 کروڑ 24 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔

2021 میں 168 دہشتگردوں کو انتہا ئی مطلوب قرار دے کر ان کے سروں کی قیمت 40 کروڑ 17 لاکھ روپے، 2022 میں 429 دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 79 کروڑ 42 لاکھ روپے، 2023 میں 294 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 46 کروڑ 73 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہیں۔ جبکہ محکمہ داخلہ نے رواں سال سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کی جانب سے 11 دہشتگردوں کے سروں کی قیمت 1 کروڑ 31 لاکھ روپے کرنے کی تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ یہ نام پہلے سے ہی ان فہرستوں میں شامل رہے ہیں۔

سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دوران کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے سلیم ربانی کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی جس کو ضلع سوات میں ہلاک کیا گیا۔ ضلع مردان میں 70 لاکھ روپے کی قیمت والے شدت پسند محسن قادراور 50 لاکھ قیمت والے عباس خان کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے ۔

اس رپورٹ کے مطابق ضلع شمالی وزیرستان میں چار شدت پسندوں حا فظ رحمت، جانان، قدر مند عرف تبسم اوررحمت اللہ کو ہلاک کیا جاچکا ہے جن کے سروں کی قیمت 40 لاکھ روپے مقرر تھی جبکہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں قمر زمان کو ہلاک کیا جا چکا ہے جس کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر تھی۔ محکمہ انسداد دہشتگردی کے مطابق ہلاک شدت پسند ریاست کو سکیورٹی فورسز، سیا سی شخصیات کو ٹارگٹ کرنے، بھتہ خوری اور مختلف مقامات پر دھماکوں میں مطلوب تھے۔

محکمہ داخلہ ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا نے متعدد بار انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ایک ہی دہشتگرد کی تصاویر اور نام کو شامل کیا ہے جبکہ بعض سرکاری ملازمین اور سماجی کارکن شخصیات کو بھی جلدی میں ان فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے جس کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست جمع کی گئی تھی اور عدالت کے احکامات کی روشنی میں ان افراد کے ناموں کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست سے خارج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ نے محکمہ انسداد دہشتگردی خیبرپختونخوا کو رواں سال مارچ میں ایک خط ارسال کیا جس میں 6 افراد کو ریاست کو مطلوب افراد کی فہرست سے فوری طور پر ہٹانے کے احکا مات صادر کئے گئے۔ محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ نورستان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق ان میں 25 ایسے مطلوب افراد بھی ہیں جن کا مستقل پتہ تو افغانستان کے صوبہ نورستان ہے لیکن وہ بوقت ضرورت ضلع چترال آتے رہتے ہیں۔

ان کے علاوہ ان مطلوب افراد میں خیبر پختونخوا کے 28 اور پنجاب کے دو اضلاع سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد شامل کئے گئے ہیں اس فہرست میں پشاورسے 313 ،سوات سے 142 ،بونیر سے 159 ، شمالی وزیر ستان سے 154 ، بنوں سے 88 ، لکی مروت سے 93 ، مردان سے 112 ، صوابی سے 112 ، چارسدہ سے 45 ، رسالپورسے 2 ، نوشہرہ سے 20 ، کرک سے 31 ، کوہاٹ سے 71، بٹگرام سے 6،باجوڑ سے 35 ،دیر اپر سے 17 ، ڈیر لوئر سے 101 ،مہمند سے 18 ، ہنگو سے 11 ،ا ہری پور سے 6 ، مالاکنڈ سے 3 ،ضلع خیبر سے 19 ، مانسہرہ سے 8 ، ضلع ٹانک سے 5 ، تو رغر ،کالام ، شیوا، مینائی ، کوہستان ،ایبٹ آباد سےایک ایک جبکہ صوبہ پنجاب کےضلع اٹک اور اوکاڑہ سے ایک ایک کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔

نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی پاکستان ( نیکٹا ) کی رپورٹ کے مطابق جہاں ملک میں سے سب زیادہ خیبر پختونخوا دہشتگردی کی زد میں ہے وہی صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ 1405 افراد کواس فہرست میں شامل کیا گیا جنکا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 529 اور صوبہ سندھ میں 208 کو کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہیں۔

نیکٹا رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے 31 اضلاع سے 1405 افراد جن میں ضلع بھکر سے 77 افراد ، ضلع پاکپتن سے 33 ،ضلع جھنگ سے 136 ،ضلع چکوال سے 40 ،فیصل آباد سے 53 ،بہاولنگر سے 33 ،اٹک سے 59 ،منڈی بہاالدین سے 18 ،گجرنوالہ سے 74 ،ملتان سے 48 ،مظفر گڑھ سے 65 ،لیہ سے 33 ،راجن پور سے 48 ،بہاولپور سے 116 ،وہاڑی سے 42 ،خوشب سے19 ،سیالکوٹ سے 36 ،خانیوال سے 20 ،ساہیوال سے 24 ،جہلم سے 6 ،ڈیرہ غا زی سے 44 ،اوکاڑہ سے 20 ،لاہور سے 57 ،ناروال سے 12 ،میاںوالی سے 13 ،سرگودھا سے 65 ،لدھراں سے 31 ، قصور سے 13 ،گجرات سے 41 ،رحیم یار خان سے 40 اور چینیوٹ سے 12 کوکالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔

نیکٹا رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخو کے 27 اضلاع سے 529 افراد کو کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے جن میں ضلع صوابی سے 37 ،کوہاٹ سے 16 ،پشاور سے 56 ،لوئر دیر سے 93 ،ڈیرہ اسماعیل خان سے 18 ،مردان سے 21 ،ہری پور سے 14 ، مہمند سے 4 ،سوات سے 40 ،ٹانک سے 3 ،چارسدہ سے 17 ،نوشہرہ سے 20 ،دیر اپر سے 48 ،بنوں سے 14 ،شانگلہ سے 19 ،جنوبی وزیرستان سے 15 ،ہنگو سے9 ،ضلع باجوڑ سے 14 ،لکی مروت سے 7 ،بونیر سے 19 ،ایبٹ آباد سے 23 ،بٹگرام سے 6 ،تورغر سے 4 ،ضلع خیبر سے 6 ،شمالی وزیرستان سے 5 ،مالاکنڈ سے 9 اور ضلع اورکزئی سے 1 شامل ہیں ۔

نیکٹا رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے19 اضلاع سے 208 افراد جن میں کراچی سے 133 ،جیکب آباد سے 7 ،سکھر سے 6 ، نوشہروفیروزے سے 4 ،لاڑکانہ سے 4 ،قمبر شاہداد کوٹ سے 7 ،ملیر سے 4 ، شہید بینظیر آباد سے 5 ،حیدرآباد سے 4 ،خیر پور سے 3 ،سنگھر سے 4 ،کشمورسے 2 ،میرپورخاص سے 1 ،کورنگی سے 12 ،ٹنڈو اللہ یار1 ،بدین سے 1 ،ڈاڈو سے 2 ،شکار پور سے 1 ،جامشورو سے 2 شامل ہیں ۔ نیکٹا نے صوبہ بلوچستان سے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرست جاری نہیں کی ہے۔

Commandant Orakzai Scouts distributed ration packages and financial assistance to the beneficiaries

کمانڈنٹ اورکزئی سکاؤٹس نے مستحقین میں راشن پیکجز اور مالی امداد تقسیم کی

کمانڈنٹ اورکزئی سکاؤٹس کرنل سید سعادت حسن نے اورکزئی کے درجنوں بیوگان،معذور ،نابینا ، یتیم بچیوں اور مستحق خواتین و افراد میں راشن پیکجز اور مالی امداد تقسیم کی۔ مقامی لوگوں نے مستحق افراد میں راشن تقسیم پر پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔۔ مقامی لوگوں نے مستحق افراد میں راشن تقسیم پر پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔

OPERATION AMZE ISTEHKAM AND POLITICS

عزم استحکام پرسیاست

وصال محمدخان
عزم استحکام پرسیاست
کون نہیں جانتاکہ پاکستان کواس وقت شدیدقسم کی دہشت گردی کاسامناہے افغانستان میں بیٹھے شدت پسندگروہ پاکستان میں سیکیورٹی فورسزغیرملکی انجینئرز اورمعصوم عوام کاخون بہانے پرکمربستہ ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسزانکے خصوصی نشانے پرہیں ایک دن پولیس کو نشانہ بناکرخون کی ہولی کھیلی جاتی ہے تودوسرے دن فوجی کانوائے پرپشت سے وارکیاجاتاہے اس سے اگلے دن کسی مسجد،بازار،ہسپتال، یاسکول کونشانہ بنایاجاتاہے۔ ان شرپسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی فورسزطویل عرصے سے حالت جنگ میں ہیں۔

امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعدانکی بزدلانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اب یہ پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں پرکام کرنے والے چینی انجینئرزکوبھی نشانہ بناتے ہیں جس سے پاکستان کونہ صرف اقتصادی طورپرنقصان اٹھاناپڑتاہے بلکہ چین جیسے دوست ملک کیساتھ تعلقات بھی خراب ہونے کاخدشہ ہے۔ چین جو پاکستان کے ہرآڑے وقت کاساتھی ہے وہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں دلچسپی رکھتاہے اوراسکی خواہش ہے کہ پاکستان بین الاقوامی ساہوکار وں کے چنگل سے نکلے ۔اس سلسلے میں اس نے پاکستان کے اندران گنت منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مگریہ شرپسندچینی شہریوں کونشانہ بناکراقتصادی تعاون کی راہ میں روڑے اٹکانے اورپاک چین دوستانہ تعلقات خراب کرنے جیسے مذموم عزائم پرعمل پیراہیں ۔وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین میں امن وامان کی صورتحال بہتربنانے کیلئے تجاویزکاتبادلہ ہوا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف بھی پاکستان میں استحکام کاخواہاں ہے کیونکہ اسکی جانب سے جاری قرض پروگرام پرپاکستان نے بہتراندازمیں عمل کیاہے اوراقتصادی ماہرین کاخیال ہے کہ اگرپاکستان انہی معاشی اصلاحات پرکار بندرہاتوکوئی بعیدنہیں کہ وہ بدترین معاشی حالات پرقابوپانے میں کامیاب ہو ۔مگردوسری جانب سیاسی عدم استحکام شدت پسندی اور دہشتگردی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستانی قوم دنیامیں سراٹھاکرجیناچاہتی ہے اوربیرونی قرضوں سے نجات چاہتی ہے۔ مگران مقاصدکی حصول کیلئے سیاسی استحکام اورامن وامان کاقیام ناگزیرہے اس ضرورت کااحساس کرتے ہوئے حکومت اورریاست پاکستان نے‘‘ عزم استحکام’’ کے نام سے ایک آپریشن شروع کرنے کافیصلہ کیاہے یہ فیصلہ جس اجلاس میں ہوااس میں وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزادکشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،آرمی چیف اورسروسزچیفس نے شرکت کی اوریہ فیصلہ ان تمام ذمہ داروں کی منظوری کے بعدکیاگیا ۔ جس پرکچھ نام نہادسیاسی حلقے اپنی دوکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

تحریک انصاف کاالمیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی اچھے عمل کی مخالفت کواپنافرض سمجھتی ہے اسکی غیرسنجیدگی سے پارٹی اندرونی طورپرٹوٹ پھوٹ کاشکارہے جس سے توجہ ہٹانے کیلئے نان ایشوزکوایشوزبنایاجارہاہے۔ پاکستانی کہلانے والاایسا کون شخص ہوگا جو پاکستان میں شدت پسندی اوردہشتگر دی کاخاتمہ نہیں چاہتاہوگا تحریک انصاف نامی نام نہادسیاسی جماعت کے دورِحکومت میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشنزکاسلسلہ جاری وساری رہا۔ جس میں پاک فوج کے جوان اپنی مقدس سرزمین پرقربان ہوتے رہے گزشتہ عیدالاضحی کے موقع پرشدت پسندوں کے بزدلانہ حملے میں سات فوجی جوان وافسران وطن پرقربان ہوگئے جن میں سے ایک جوان کی دوہفتے بعدشادی تھی کیایہ جوان کہیں آسمان سے گرے ہیں ؟یہ پاکستانی نہیں ؟ یہ اسی مٹی کے فرزندنہیں؟ اگریہ پاکستانی ہیں توانکے خون کابدلہ ریاست پاکستان پرفرض یاقرض نہیں؟ ایک طرف سیکورٹی فورسز، فوج ،پولیس کے جوان وافسران اورملک کے معصوم شہری نشانہ بنائے جارہے ہیں تودوسری جانب ملکی اقتصادیات کوتباہ کیاجارہاہے جوکسی بھی ایٹمی ریاست کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

ان شرپسندعناصرکی سرکوبی پاک فوج کیلئے چنداں مشکل نہیں اوریہ ثابت بھی کیاجاچکا ہے مگرسیاستدان کبھی ایک توکبھی دوسری سیاسی مجبوری کے تحت فوج کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کچھ نہیں بن پڑتاتوانتہائی حساس نوعیت کے معاملے کوسیاسی بیان بازیوں اورسوشل میڈیا ٹرینڈزکا یندھن بنادیاجاتاہے۔

مولانافضل الرحمان اورشاندانہ گلزاراسمبلی تقاریرمیں ایک جانب دہشت گردی کارونارورہے ہیں دوسرے ہی لمحے آپریشن کی مخالفت کردیتے ہیں جس کیلئے انکے پاس کوئی معقول دلیل نہیں سوائے قصے کہانیوں اورجوش خطابت کے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوگاتومولاناپرحملہ کرنے والوں اورباجوڑمیں انکے اسی سے زائدکارکنوں کوآگ وخون میں نہلانے والوں سے حساب کیسے لیاجائیگا؟ کوئی متبادل تجویزتوسامنے لائیں خطابت کے جوش میں سب کچھ روندڈالناکہاں کی سیاست ہے ؟سوشل میڈیاپرٹرینڈزسے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ جیسے فوج اپنے لاؤلشکر، ٹینکوں اورتوپ وتفنگ کے ذریعے خیبرپختونخواپرحملہ آورہوگی اوریہاں عام شہریوں کاخون بہے گاحالانکہ ایساکچھ نہیں۔ عزم استحکام جیسا کہ نام سے ظاہرہے یہ استحکام کیلئے نظرآنے والے اقدامات کاایک منصوبہ ہے جس کامقصد انتہاپسندی ،دہشت گردی سے نجات اورسیاسی استحکام ہے۔ جوعناصراپنی سیاست عزم استحکام پرچمکارہے ہیں وہ عاقبت نااندیشی کامظاہرہ کررہے ہیں اورجانے انجانے میں دشمن قوتوں کاآلہ کاربن رہے ہیں۔

غیرسنجیدہ اورلاابالی سیاستدان ملکی سلامتی کیساتھ کھلواڑکرنے کی بجائے عزم استحکام میں حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ملک وقوم کودہشت گردی ،غربت ،ناانصافی اوربدامنی سے نجات ملے ۔سیاست کیلئے دیگرایشوزکی کمی نہیں سیاسی قیادت کوغیرسنجیدگی سے پیچھاچھڑاکرعزم استحکام پرمتفق ہوناچاہئے ۔ایسانہ ہونے کی صورت میں بھی استحکام کاعمل جاری رہے گامگرانکی غیرسنجید گی اورموقع پرستی عیاں ہوگی ۔عزم استحکام وطن عزیزکی ضرورت ہے، اس میں تاخیرملکی سلامتی کیلئے خطرناک ہے، عزم استحکام پرسیاست قومی سلامتی کیساتھ کھلواڑکے مترادف ہے۔اس سے گریزاوراجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔