PCOS Awareness Walk

پی سی او ایس کے حوالے سے آگاہی واک

آج حیات اباد میڈیکل کمپلیکس کے گائنی ڈیپارٹمنٹ نے پروفیسر بشرا رؤف اور ربیعہ صدف پروفیسر ابس اینڈ گائنی کی سربراہی میں ایک آگاہی واک کا اہتمام کیا۔ جس کا بنیادی مقصد اس حالت کے پھیلاؤ اور صحت پرمضر اثرات کی روک تھام کرنا ہیں۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق ہر دس میں سے ایک خاتون PCOs کا شکار ہوتی ہے۔ بروقت علاج سے بچا جا سکتا ہے۔ آگاہی کے لئے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی۔جس میں بتایا گیا کہ POCs اورریز ضرورت سے زیادہ ہارموونز پیدا کرتی ہیں جس سے ہارموونز کا توازن بگڑ جاتا ہے جو انسانی جسم کو متاثر کرتا ہے۔ PCOs ایک ایسی حالت ہے جو ڈمبگرنتی کی خرابی کے ساتھ پیش آتی ہے، اینڈوکرائن کے مسائل ہائپرنسولیمیا اور میٹابولک بیماری سے وابستہ ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ عام آبادی میں اندازاً پھیلاؤ 20-33% ہے۔ پی سی اوز والے مریض جن میں عام طور پر موٹاپا، ماہواری میں خلل، بانجھ پن اور ہائپر اینڈروجنزم کی خصوصیات جیسے ایکنی، ہیرسوٹزم اور ایلوپیسیا موجود ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ موٹاپا اور میٹابولک کو اسکیمک دل کی بیماری کے خطرے کے عوامل تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی کچھ خصوصیات اینڈومیٹریال سے بھی وابستہ ہیں۔ چھاتی اور رحم کا کینسر اور PCOs کو USG اسکین کے ذریعے آسانی سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں احتیاطی تدابیر اور علامات پر مبنی انتظام بہت فائدہ مند ہے۔ ہمیں اس بارے میں عام لوگوں میں بیداری پھیلانی چاہیے تاکہ اسے جلد اٹھایا جائے اور اس کے مطابق متبادل انتظام کیا جائے

Wisal Muhammad Khan

تقسیم درتقسیم

تقسیم درتقسیم

سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی اکثریتی بنچ نے 12جولائی کے مختصر حکم کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلے پر ماہرین آئین و قانون اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ چونکہ قوم میں تقسیم پیدا ہو چکی ہے جس سے عدلیہ بھی محفوظ نہیں اس لئے اکثریتی فیصلے پر رائے عامہ بھی منقسم ہے۔ یہ تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ مخالف فریق کی خانہ کعبہ میں عبادت کو بھی سوشل میڈیا ٹرولنگ کے ذریعے متنازعہ بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے عدالتوں کا حال یہ ہے کہ لوگ بنچ دیکھ کر فیصلے کی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ سیاست ہمارے ہر شعبے کو اس قدر لپیٹ میں لے چکی ہے کہ عدالت کا فیصلہ پڑھنے یا سمجھنے سے پہلے ہی ایک طبقہ اس کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے جبکہ دوسرا اسے آئین و قانون کے خلاف قرار دینے میں جت جاتا ہے۔ اس تقسیم در تقسیم سے ملک و قوم کا جو بے پناہ نقصان ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ مگر اس سے بین الاقوامی طور پر بھی ملک کی سبکی ہوتی ہے۔ حالیہ تفصیلی فیصلے میں دہرایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور مخصوص نشستیں اس کا حق ہے۔

پیش نظر نہ یہ بات ہے کہ پی ٹی آئی نے کئی بار تنبیہ کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کیوں نہ کیے؟ اور جو برائے نام انتخابات منعقد کیے گئے ان پر پارٹی کے اندر سے جو اعتراضات اٹھے ان کی شنوائی کس طرح ممکن تھی؟ انتخابی نشان چھینے جانا پارٹی کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ تھا۔ انتخابات کے بعد اپنے ارکان کو دوسری جماعت میں شامل کروانا بھی پارٹی کا اپنا “دانشمندانہ” فیصلہ تھا اور اس فیصلے پر داد بھی سمیٹی گئی۔

سنی اتحاد کونسل نے چونکہ الیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کے لیے کوئی لسٹ جمع نہیں کروائی تو اسے ان نشستوں سے محروم کر دیا گیا جس کے خلاف اس نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں پانچ رکنی لارجربنچ نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ اس استرداد کے خلاف اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے آٹھ رکنی اکثریتی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی تمام نشستیں تحریک انصاف کو دے ڈالیں۔ عدالت کے سامنے مسئلہ تو سنی اتحاد کونسل کا تھا کہ اسے مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں یا نہیں؟ فیصلے سے واضح ہوا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

مگر عدالت نے اپنی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی عام نشستیں بھی تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیں جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے مختصر حکمنامہ جاری کیا گیا تھا، تفصیلی فیصلہ خاصی تاخیر سے اس وقت جاری ہوا جب عدالت کی اندرونی سیاست کا پارہ اونچے درجوں کو چھو رہا تھا جس سے ثابت ہوا کہ معاملہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نہیں بلکہ یہ عدالت کی اندرونی سیاست اور خلا کا شاخسانہ ہے۔

تفصیلی فیصلے میں بنیادی انسانی حقوق اور اعلیٰ روایات و اقدار پر زور دیا گیا ہے۔ بنچ کے دو ارکان نے آئین کے جن آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی جانب اشارہ کیا اس کی وضاحت کرنے کی بجائے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ دو ارکان نے آئین کے کم از کم پانچ آرٹیکلز کی خلاف ورزی پر سوال اٹھائے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا یا اس کی وضاحت نہیں ہوئی۔ دو ارکان کے اٹھائے گئے نکات قابل غور ہیں، بنچ کے یہ ارکان سبزی منڈی سے بیوپاری اٹھا کر نہیں بٹھائے گئے بلکہ یہ بھی اسی مروجہ طریقہ کار کے تحت سپریم کورٹ تک پہنچے ہیں جس کے تحت آٹھ ارکان یا دیگر معزز ججز پہنچتے ہیں۔

وضاحت کی بجائے کہا گیا کہ “دو ارکان کا عمل ججز کے منصب کے منافی ہے اور فیصلے سے اختلاف کا انداز مناسب نہیں”۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ان دو ججز کو جب اختلافی نوٹ کا اختیار حاصل تھا اور انہوں نے اپنا آئینی اور منصبی فرض ادا کر دیا تو اس میں نامناسب کیا تھا؟ دو ججز کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ “سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے کر خود سے ریلیف تخلیق کیا ہے، اکثریتی فیصلے کے ذریعے آئین میں نئی شقیں شامل کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا گیا ہے، ایسا کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا، پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، آئین کے خلاف فیصلے پر کوئی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں، 80 ارکان اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں، ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا حتیٰ کہ اس کے چیئرمین بھی آزاد حیثیت سے میدان میں اترے۔

فل کورٹ کے دو ارکان نے اقلیتی فیصلے میں قابل غور نکات اٹھائے تھے انہیں یوں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ روایات و اقدار کا اگر پاس رکھنا ہے تو دو ارکان نے ان روایات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ “مختصر فیصلے کو پندرہ دن گزر جانے کے باوجود تفصیلی فیصلہ نہ آ سکا، اختلافی نوٹ کا یہ جملہ سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے کہ “پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکلز 175 اور 185 میں تفویض شدہ دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا جبکہ آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا”، مگر اس کی وضاحت آنے کی بجائے اسے نامناسب قرار دینا مناسب سمجھا گیا۔ جو مناسب طرز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح اکثریتی ججز کو فیصلہ جاری کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہے اسی طرح اقلیتی ارکان کو بھی یہی حق حاصل ہے، ان کا طرز عمل نامناسب کیوں ہو سکتا ہے؟ پھر انہوں نے آئین کے جن شقوں کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے اسے آئینی ماہرین بھی درست سمجھتے ہیں۔

ایسے میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی اکثریتی ارکان کا حالیہ فیصلہ بھی “نظریہ ضرورت” قرار پانے کے قوی امکانات ہیں۔ اس فیصلے سے ملک میں بحران کا خاتمہ تو ممکن نہیں، البتہ بحران در بحران کا جنم لینا نوشتہ دیوار ہے۔ اور یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا کہ یہاں آئین و قانون کی بجائے فیصلے پسند نا پسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جس سے یقیناً ہماری عدلیہ کی رینکنگ مزید تنزلی اور قوم مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے۔

وصال محمد خان

Bajaur: Crackdown on illegal clinics, private hospitals

باجوڑ: غیر قانونی کلینکس, پرائیوٹ ہسپتال کیخلاف کریک ڈاؤن

باجوڑ میں عطائی ڈاکٹروں اور غیر قانونی کلینکس ، میڈیکل سٹوریز ، لیبارٹریز اور غیر قانونی پرائیوٹ ہسپتال کے خلاف کریک ڈاؤن
تفصیل کے مطابق ڈپٹی کمشنر باجوڑ شاہد علی کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر خار ڈاکٹر صادق علی نے ڈی ایچ او ڈاکٹر گوہر ، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرخار-1 اور ڈرگ انسپکٹر کے ساتھ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے عوامی ایجنڈے کی روشنی میں عوامی شکایات پر کریک ڈاؤن کیا۔ اس دوران غیر رجسٹرڈ میڈیکل اسٹورز، فارمیسی، 10 لیبز، چند کلینک، ایک ہسپتال اور متعدد فارمیسیوں کو سیل کیا اور موقع پر ہی یہ غیر قانونی دھندا چلانے والو کو گرفتار کیا گیا، جن کے خلاف قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔ اس دورے میں میڈیکل سٹور ایسوسی ایشن کے نمائندے شامل تھے اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ تمام رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ سٹورز کی فہرست پیش کریں تاکہ انہیں باجوڑ بھر میں مناسب طریقے سے قانون کے مطابق لایا جا سکے۔ اس کریک ڈاؤن کے موقع پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال خار میں ڈیوٹی اوقات کے دوران پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے چند ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنز کو معطل کرنے کی سفارش ہسپتال کے ایم ایس اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال خار کے انتظامیہ کو کردی گئی۔

Meeting of Pakistan Red Crescent Society under the chairmanship of Khyber Pakhtunkhwa

گورنر خیبرپختونخوا کی زیرصدارت انجمن ہلال احمر پاکستان کا اجلاس

اجلاس میں انجمن ہلال احمر پاکستان خیبرپختونخوا برانچ کی منیجنگ کمیٹی کے 12 نئے اراکین کی منظوری دی گئی ۔ ارکان میں اراکین صوبائی اسمبلی احمد کریم کنڈی، ارباب زارک، سردار احسان اللہ خان میانخیل و دیگر شامل ہیں۔اجلاس میں پی آر سی ایس خیبرپختونخوا کے اغراض و مقاصد، فرائض، مالی و انتظامی امور سے متعلق بریفنگ دی گئی

قدرتی آفات میں امدادی سرگرمیوں کیلئے امدادی سامان کی موجودگی، سالانہ آمدن و اخراجات، ڈونرز سے فنڈز کا حصول، رضاکارانہ خدمات، ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز سمیت دیگر امور پر تفصیلات فراہم کی گئیں۔ اجلاس میں پی آر سی ایس کے زیرانتظام پراپرٹیز کا استعمال، فنڈز کا حصول یقینی بنانے کیلئے ڈونرز کانفرنس کے انعقاد پر بھی گفتگو کی گئی۔ منیجنگ  کمیٹی کے نئے ارکان کو خوش آمدید اور سابقہ ارکان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

گورنر کے پی فیصل کریم کنڈیکا کہنا تھا کہ امید ہے نئے ارکان زیادہ محنت سے کام کریں گے۔فنڈز پیدا کرنے پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔پی آر سی ایس کو صوبہ کے تمام اضلاع میں دفاتر قائم کرنے چاہئیں۔پی آر سی ایس کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں معاون کار ثابت ہوں۔مختلف ڈونرز ممالک خیبرپختونخوا میں کام کرنا چاہتے ہیں، ریڈ کریسنٹ جامع پروپوزل تیار کرے اور دونرز کو ایریا آف ورک دکھائے۔ پی آر سی ایس کے زیر انتظام ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز کو دیگر اضلاع میں پھیلانے کیلئے نیوٹک کی معاونت حاصل کی جائے۔پی آر سی ایس کے زیرانتظام پراپرٹیز کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق مکمل  تفصیلات فراہم کی جائیں۔اراضی تفصیلات کا مقصد اس کو ریوینیو پیدا کرنے کے لئے استعمال میں لانا ہے۔امدادی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کیلئے کام کے طریقہ کار میں جدت اور تیزی لانی ہے۔

SAFF Under-17 Football Match, Pakistan made it to the Semi-Finalsپاکستان

ساف انڈر 17 فٹبال چیمپئن شپ، پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی

پاکستان نے ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن (ساف) انڈر 17 فٹبال چیمپئن شپ 2024 کے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔ آخری گروپ میچ میں پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سری لنکا کو 1-5 سے شکست دیکر سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کیا۔ پاکستان کی جانب سے ابتدائی برتری 20 ویں منٹ میں ملی، جب سبحان کریم نے ایک عمدہ گول کے ذریعے ٹیم کو سری لنکا پر 0-1 کی سبقت دلائی، اس کے بعد 30 ویں منٹ میں محمد طلحہ نے ایک اور شاندار گول کرکے پاکستان کی برتری کو 0-2 کر دیا۔ پاکستان کا تیسرا گول 36 ویں منٹ میں سبحان کریم کی طرف سے آیا، جس نے ٹیم کی برتری کو مزید مستحکم کردیا۔ ہاف ٹائم پر پاکستان کو 0-3 کی واضح برتری حاصل تھی۔

دوسرے ہاف کے آغاز میں سری لنکا کی ٹیم پر مزید دباؤ بڑھا اور سری لنکا کے ایک اون گول نے پاکستان کے اسکور کو 0-4 کر دیا۔ 56 ویں منٹ میں عبدالغنی نے ایک شاندار گول کرتے ہوئے پاکستان کا اسکور 0-5 کر دیا۔ سری لنکا کی ٹیم نے کھیل کے 76 ویں منٹ میں اپنا پہلا اور واحد گول کیا لیکن وہ پاکستان کی زبردست کارکردگی کے سامنے زیادہ مزاحمت نہ کر سکی، اس شاندار فتح کے ساتھ پاکستان نے ایونٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنالی ہے۔

Peshawar: Provincial Minister for Higher Education visited the Higher Education Regulatory Authority

پشاور: صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کا ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کا دورہ

پشاورصوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے رابطہ HERA” ویب پر مبنی ڈیٹا مینجمنٹ سسٹم کا باضابطہ افتتاح کیا۔ صوبائی وزیر کو مینجمنٹ سسٹم کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ نیاجدید نظام ڈیٹا کو ہینڈل کرنے کے طریقے میں مددگار ثابت ہوگا۔ صوبے کے نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں کا تعلیم کے معیار اور انفراسٹرکچر کے بنیاد پر رینکنگ نظام شروع کیا جائیں۔

پشاور پرائیویٹ تعلیمی داروں میں تعلیمی ماحول پر بھی خصوصی فوکس رکھا جائیں۔ صوبا ئی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم  میناخان کا کہنا تھا کہ نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے غریب اور ضرورتمند طلبہ کو سکالرشپس کی فراہمی کو یقینی بنائیں صوبائی وزیر کی HERA حکام کو ہدایتکی تلقین بھی کی۔

Aqeel Yousafzai editorial

سوات حملے کی آفٹر شاکس

سوات حملے کی آفٹر شاکس

صوبائی حکومت نے ملکی اور علاقائی دباؤ اور بعض اہم ممالک کی تشویش کا نوٹس لیتے ہوئے 22 ستمبر کو مالم جبہ سوات کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارتکاروں کے قافلے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ” پاداش ” یا غفلت برتنے پر ڈی آئی جی اور ڈی پی او سوات کے خلاف کارروائی کرکے ان کو سنٹرل پولیس آفس بلالیا ہے جبکہ واقعے کے پس منظر میں مبینہ غفلت کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ان تمام سفارتکاروں کو ایک رسمی خط لکھ کر ان کو مہمان نوازی کی باقاعدہ دعوت دی ہے جو کہ سوات گئے ہوئے تھے۔

یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک معاون خصوصی اور بعض ممبران اسمبلی نے انتہائی غلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی فلور پر یہ کہہ کر پاکستان کے علاوہ اپنی حکومت کا بھی مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ صوبائی حکومت سفارتکاروں کے دورے سے بے خبر تھی ۔ یہ نہ صرف افسوس کی بات تھی بلکہ اس کو سفارتی تعلقات اور نزاکتوں کے پس منظر میں شرمناک بھی کہا جاسکتا ہے۔

اس طرزِ عمل سے یہ بات پھر سے ثابت ہوگئی ہے کہ خیبرپختونخوا پر ایسے لوگ حکمران بنے بیٹھے ہیں جن کو ایسے معاملات ڈیل کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔

سفارتی تعلقات سے متعلق اس حکومت کی ” شاندار کارکردگی ” تو سب نے اسی مہینے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس اعلان کی صورت میں بھی دیکھ لیا تھا جب انہوں نے وفاقی حکومت کی ڈومین میں چھلانگ لگاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا شوشہ چھوڑا تھا اور جس کے ردعمل میں افغان سفارتکاروں کو خود یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ایسا کرنا ان کے دایرہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔

ہے درپے غلطیوں یا پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی مہم جوئی نے صوبے کو تجربہ گاہ بنادیا ہے اور سفارتی ، صحافتی حلقوں میں نہ صرف اس حکومت بلکہ پورے صوبے کا مذاق اڑایا جارہا ہے حالانکہ یہ پارٹی سال 2013 کے بعد اتنے اہم مگر حساس صوبے پر حکمرانی کرتی آرہی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور خیبرپختونخوا کو مزید مذاق بننے سے قبل اس صوبائی حکومت کی سرگرمیوں ، حرکتوں اور پالیسیوں کا زیرو ٹاولرنس کی پالیسی کے تحت نوٹس لیا جائے اور ان ڈرامہ بازیوں کے خاتمے کے اسباب اور طریقے ڈھونڈے جائیں۔

عقیل یوسفزئی