Australian Army Chief Simon Stewart meeting with Army Chief General Asim Munir

آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے آسٹریلوی آرمی چیف کی ملاقات

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے آسٹریلوی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سائمن اسٹیورٹ نے ملاقات کی۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات میں عالمی اور علاقائی سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آ رمی چیف نے آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو شاندار قرار دیا،آر می چیف نے عالمی امن اور استحکام کے فروغ کے لئے مضبوط دوطرفہ تعلقات کو بھی اہم قراردیا۔ دونوں اطراف نے دفاع و سلامتی کے شعبوں میں تعلقات مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ آ رمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے امن و استحکام کے مشترکہ مقاصد کے فروغ کیلئے پاک آسٹریلیا تعلقات کی اہمیت اجاگر کی۔ قبل ازیں جی ایچ کیو پہنچنے پر آسٹریلین آرمی چیف نے پاکستان کے شہیدوں کے احترام میں یادگار شہدا پر پھول چڑھائے۔

DG Rescue 1122 Muhammad Ayaz

ڈی جی ریسکیو 1122 کی ہدایت پر آگاہی برائے ڈینگی وائرس

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 خیبرپختونخوا ڈاکٹر محمد آیاز کی احکامات پر ریجنل ڈائریکٹر آپریشن (سنٹر) ڈاکٹر میر عالم کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر حیات اللّٰہ کی نگرانی میں آج تحصیل حلیمزئی میں (گورنمنٹ ماڈل سکول غلنئی) میں ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے اساتذہ اور طلباء میں آگاہی اجاگر کرنے کیلئے کمپین چلائی گئی۔ اس سلسلے میں پمفلٹس اور بروشر بھی تقسیم کئیں گئیں۔

انٹر سکول سپورٹس گالا اہتتام پزیر

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب علی امین گنڈاپور صاحب کے عوامی ایجنڈا کے تحت گراس روٹ لیول ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے اور نوجوان کو صحت مند انہ سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کیلئے ڈپٹی کمشنر اور کزئی جناب محمد عرفان الدین صاحب کے خصوصی ہدایات کے روشنی میں ضلعی سپورٹس آفیسر محمد حسین اورکزیئ اور ایجوکیشن آ فیسر کے زیرِ نگرانی 21 اکتوبر سے جاری سا لانہ انٹر سکول سپورٹس گالا کلایا سپورٹس کمپلیکس میں اہتتام پزیر ہوا۔ جسمیں کرکٹ،فٹ بال،والی بال،باسکٹ بال، بیڈمنٹن، اتھلیٹکس اور رساکشی کے مقابلے منعقد کیے گئے۔ ضلع اور کزئی کے چاروں تحصیلوں سے آ ئے ہوئے کثیر تعداد میں مشران، اتھلیٹس اور نوجوانوں نے شرکت کی اور اس تفریحی ایونٹس کو خوب انجوائے کیا۔ سپورٹس گالا کے اہتتام پر کمانڈنٹ اورکزئی سکاؤٹس کرنل سعدات حسن، اسسٹنٹ کمشنر لوئر اور کزئی ہارون سہو،ضلعی سپورٹس آفیسر محمد حسین اور ایجوکیشن آفیسر حیات خان نے فائنل ایونٹ میں ونرز اور رنرزآ پ جیتنے والے کھلاڑیوں میں شیلڈز اور ٹرافیاں تقسیم کیں۔ یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ میں فائنل جیتنے والے تمام ایونٹس کے ڈویژنل لیول مقابلے 15نومبر سے کوہاٹ ڈویژن میں منعقد ہونگے۔

Hopes associated with Trump

ٹرمپ سے وابستہ امیدیں

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل 45 ویں صدر بھی ٹرمپ ہی تھے۔ امریکی تاریخ میں شائد پہلی بار کوئی شخص کسی کارکردگی کی بجائے دلفریب نعروں، سوشل میڈیا کے استعمال اور منہ پھٹ ہونے کے سبب دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس انتخاب میں ان کی پارٹی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ ذاتی پہچان اور مقبولیت کے سبب اس عہدۂ جلیلہ تک پہنچنے میں سرخرو ہوئے ہیں۔ امریکہ چونکہ واحد سپرپاور ہے اس لئے اس کے صدارتی انتخاب پر دنیا کی نظریں جمی رہتی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں اخباروں کی سرخی ‘‘امریکی عوام آج دنیا کا حکمران منتخب کرینگے’’ ہوتی ہے۔

پاکستان چونکہ ابتدا سے ہی امریکی کیمپ کا حصہ رہا ہے اس لئے یہاں بھی امریکی صدارتی انتخاب سے لوگ باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ دیگر لوگ تو محض باخبر رہنے کیلئے امریکی صدارتی انتخاب میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی نے اس بار خود کو امریکی صدارتی انتخاب کا حصہ سمجھ لیا۔ سال بھر پہلے سے پارٹی قائدین نے کارکنوں کو ٹرک کی اس بتی کے پیچھے لگا دیا تھا کہ جب ٹرمپ صدر منتخب ہونگے تو وہ عمران خان کو رہائی دلوا ئینگے۔ اسی ایک طبقے نے امریکی صدارتی انتخاب میں وہاں کی عوام سے بھی بڑھ کر دلچسپی لی اور ان کی دلچسپی نے پاکستان میں ایک خودساختہ انتخابی ماحول بنا دیا تھا۔

اور یہ ماحول بنانے میں بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر قائدین کے کچھ واشگاف اور کچھ معنی خیز بیانات نے اہم کردار ادا کیا۔ ان لوگوں کو نہ ہی ملک کی خودمختاری کی پروا ہے اور نہ ہی عزت نفس کی فکر ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگاتے رہے ہیں۔ سائفر کے رچائے گئے ڈرامے کے تحت وہ دو سال تک امریکی سازش کا چورن بیچتے رہے، اپنی حکومت کے خاتمے پر تو انہوں نے باقاعدہ طور پر امریکہ سے آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے اور ‘‘ہم کوئی غلام ہیں’’ کا سلوگن دیا گیا ہے۔ مگر عمران خان کی رہائی کیلئے اسی امریکہ کی جانب مدد طلب نظروں سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کا ایک محدود طبقہ سمجھتا تھا کہ یہاں حکمرانی امریکہ کی نظر التفات کی محتاج ہوتی ہے، غالب اکثریت کو اس مفروضے سے اتفاق نہیں تھا مگر پی ٹی آئی نے جس شد و مد کے ساتھ ٹرمپ سے نہ صرف امیدیں وابستہ کیں بلکہ یہ پرچھار بھی کی کہ ‘‘ٹرمپ آوے گا، تے ساڈا خان رہائی پاوے گا’’۔ ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کرنے اور اس کی پرچھار کرنے سے کچھ اور ہوا یا نہ ہوا مگر پاکستان میں پی ٹی آئی کارکنوں کا یہ یقین پختہ ہوگیا کہ یہاں حکمرانی دینا اور چھیننا امریکہ کے اختیار میں ہے۔ امریکہ جب چاہے یہاں حکومت کی رخصتی عمل میں آتی ہے اور اس کی آشیرباد سے حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔

اور یہ تاثر اس جماعت کی جانب سے قائم ہوا جو ‘‘ہم کوئی غلام ہیں’’ کا سلوگن رکھتی ہے۔ اس سے قبل عمران خان نے نہ صرف امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگایا بلکہ ‘‘رجیم چینج’’ کے حوالے سے ایک بیانیہ بنا کر باقاعدہ طور پر اس کی ترویج کی مگر اب نجانے کیا ہوا کہ تحریک انصاف کی پوری جماعت باجماعت ٹرمپ کی کامیابی کیلئے دعا گو رہی۔ صدر ٹرمپ جب برسر اقتدار تھے تو عمران خان نے بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کیا جس میں بہت سی باتوں کے علاوہ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران انہوں نے نواز شریف وغیرہ کے اے سی اتروانے کا اعلان کیا، آج عمران خان جیل میں ہیں اور وہ سہولیات کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں۔

دورۂ امریکہ کے دوران عمران خان نے پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کیلئے تو کوئی کردار ادا نہ کیا۔ کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی صلاحیت موجود نہیں تھی جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو، البتہ صدر ٹرمپ کیلئے یہ خدمات ضرور انجام دیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے اندر غیر قانونی طور پر ضم کیا۔ مبینہ طور پر ٹرمپ نے عمران خان کو قائل کیا کہ وہ بھارت کے اس اقدام پر آنکھیں بند کرکے خاموش رہیں اور خان نے بالکل یہی کیا۔ انہوں نے دوچار مرتبہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے خاموشی اختیار کرنے اور اس قسم کے چند دیگر غیر ضروری نوٹنکیاں کر کے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔

عمران خان کو یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کی بات ماننے اور ان کیلئے خدمات انجام دینے کا صلہ ملے گا۔ اس لئے اب وہ نہ صرف ان کی رہائی کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے بلکہ انہیں رہا کروا کر برسر اقتدار لانے کیلئے پورا زور لگائیں گے، جس کے نتیجے میں عمران خان برسر اقتدار آ کر پاکستان کی تباہی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ سلسلہ اپریل 2022ء میں امریکی سازش کے باعث ادھورا رہ گیا تھا۔ اس بیانئے سے ایک جانب اگر ملک کی بدنامی ہوتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدان امریکہ سے اقتدار دلانے کی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف کے حصے میں بھی کوئی نیک نامی نہیں آتی۔

یہ جماعت اور اس کے سربراہ خود کو عزت نفس، خودمختاری، جمہوریت اور انقلاب کے داعی سمجھتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ اقتدار کیلئے ٹرمپ کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ افسوس ہے اس جماعت اور اس کے راہنماؤں کے اس دوغلے کردار پر، یہ اقتدار کیلئے امریکہ جیسے ملک کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور وہاں کسی شخص کے انتخاب کیلئے دعائیں مانگتے ہیں مگر اپنے سابقہ اور موجودہ کردار پر غور نہیں فرماتے۔ یہ اگر اپنے اعمال پر نظرثانی کریں، اپنا قبلہ درست کریں، دوسروں کی عزتیں اچھالنا بند کر دیں اور اپنی اداؤں پر کچھ غور کریں تو اقتدار انہیں پاکستانی عوام نے دینا ہے۔

ان کی سابقہ اور موجودہ کارکردگی کے بل بوتے اقتدار تک رسائی ممکن نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں کوئی منصوبہ نہیں محض جھوٹے بیانئے ہیں، نعرے ہیں، دعوے ہیں، الزام تراشی اور بہتان طرازی کے فن میں مہارت ہے۔ صدر ٹرمپ سے اول تو یہ امید نہیں کہ وہ پاکستان سے اس قسم کا کوئی بودا مطالبہ کریں گے لیکن اگر ذولفی بخاری اور جمائمہ گولڈسمتھ کی ان تھک کوششوں سے ایسا ممکن ہوا تو ریاست پاکستان امریکہ کا کوئی زرخرید غلام نہیں۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ایٹمی دھماکوں کے وقت امریکی دباؤ برداشت کرچکی ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی ٹرمپ سے وابستہ امیدیں پیوستہ خاک ہونے کے روشن امکانات ہیں۔

وصال محمد خان