نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 47 ویں صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ امریکی صدر ہمیشہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں مگر صدر ٹرمپ امریکہ سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے حوالے سے سابقہ تمام صدور پر بازی لے گئے ہیں۔ وہ 2016ء میں بھی امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہوئے تھے۔ 2020ء میں جو بائیڈن سے اپنی شکست کو انہوں نے دھاندلی قرار دیا تھا، یوں شاید پہلی بار امریکی انتخابی نظام کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ غیر روایتی امریکی صدر ہیں، سخت گیر طبیعت کے مالک ہیں اور دنیا بھر میں امریکی جنگوں کے مخالف ہیں۔ اس لیے گزشتہ دور میں انہوں نے افغان جنگ بند کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور موجودہ ٹرم میں وہ یوکرائن کا جنگ بند کروانا چاہتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اگرچہ وہ اسرائیل کے حامی ہیں مگر عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات ہیں۔ وہ روس اور چین کے ساتھ مثبت مسابقت کے قائل ہیں اور خواہ مخواہ کی محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل انہوں نے چینی صدر سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ امریکہ اور چین مل کر دنیا کو پہلے سے زیادہ پرامن بنائیں گے۔ حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘‘آج سے امریکہ سنہری دور میں داخل ہو گیا، اب امریکہ ترقی کرے گا، اپنے دور میں امریکہ کو پہلے رکھوں گا، امریکہ بہت جلد مضبوط، عظیم اور پہلے سے کہیں زیادہ کامیاب ملک بنے گا۔ 20 جنوری 2025ء آزادی کا دن ہے، اس لمحے سے امریکہ کا زوال ختم ہو چکا ہے۔ میری اولین ترجیح ایک ایسا ملک قائم کرنا ہے جو آزاد اور مضبوط ہو۔’’
نئے امریکی صدر نے اپنے پہلے خطاب میں جن عزائم کا اظہار کیا ہے ان کی پہلی ترجیح امریکہ ہے۔ وہ دنیا بھر میں مہنگی جنگی مہمات کے خلاف ہیں جس سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ وہ یوکرائن جنگ بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس جنگ کو امریکی انتظامیہ ہوا دیتی رہی اور یوکرائن کو روس کے مدمقابل کھڑا کرنے میں امریکہ کا ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح اسرائیل جس نے فلسطینیوں سمیت ارد گرد کے دیگر ممالک میں بھی فوجی کارروائیاں کی ہیں، اسے بھی امریکی آشیرباد حاصل ہے۔ اگر صدر ٹرمپ اپنے دور میں فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں کردار ادا کریں تو انہوں نے امریکہ میں سنہرے دور کے آغاز کی جو خوشخبری سنائی ہے، اس سنہرے دور سے مشرق وسطیٰ بھی مستفید ہو سکے گا۔ اقوام متحدہ نے جو دو ریاستی حل پیش کیا ہے، اگر صدر ٹرمپ اسی پر عملدرآمد کروائیں تو ان کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا پاکستان پر اثرانداز ہونے کا تعلق ہے تو یہاں ایک سیاسی جماعت کا روز اول سے خیال تھا کہ ٹرمپ کے انتخاب سے ان کے قائد کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ پوری پارٹی اسی انتظار میں تھی کہ ٹرمپ صدر منتخب ہو جائیں۔ ان کے انتخاب پر یہ جماعت شاداں و فرحاں تھی کہ اب ان کی دلی مراد بر آئے گی بلکہ ان کا خیال تھا کہ صدر ٹرمپ حلف لیتے ہی پہلا حکم یہی جاری کریں گے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ مگر انہیں حلف لیے پانچ دن گزر چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے بہت سے احکامات جاری کیے ہیں، کئی پالیسیوں کو ریورس کیا گیا ہے، کچھ نئی پالیسیاں لائی گئی ہیں مگر ابھی پاکستان کی باری نہیں آئی۔ اغلب امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹرمپ سے امیدیں یکطرفہ عشق ثابت ہوں گی۔
دنیا کے سپر پاور کے ایسے صدر جو اپنی اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے کر عہدے تک پہنچے ہیں، انہیں بہت سے کام کرنے ہیں۔ اپنے ملک پر توجہ مرکوز رکھنی ہے، امریکہ کی اقتصادی حالت سدھارنی ہے، اپنے ملک کو عظیم بنانا ہے اور امریکی عوام نے ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس پر پورا اترنا ہے۔ پاکستان میں تو سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے بیانیے پروان چڑھائے جاتے ہیں، جھوٹ کو فروغ دیا جاتا ہے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں مگر امریکی عوام جھوٹے بیانیوں کے جھانسے میں آنے والے نہیں۔ وہاں کام مانگا جاتا ہے اس لیے عین ممکن ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعت کو ٹرمپ سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوں۔
ٹرمپ انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان افغان مہاجرین کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔ 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت 25 ہزار ایسے افغان جنہوں نے امریکہ کے لیے خدمات انجام دی تھیں، انہیں امریکہ میں آباد کیا جانا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہیں امریکی درخواست پر عارضی انتظام کے تحت پاکستان میں پناہ دی گئی۔ مگر صدر ٹرمپ کی پالیسی تارکین وطن کے حوالے سے مختلف ہے جس کا وہ برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اس پالیسی کی زد میں یہ افغان بھی آتے ہیں جنہیں امریکہ کے کہنے پر پاکستان میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے بھی دردسر بن سکتے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت امریکی فوج یا ان کے کنٹریکٹرز کے لیے کام کرتی تھی اور یہ ان کے تربیت یافتہ افراد ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے انہیں امریکہ میں آباد کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر ساڑھے تین سال بعد بھی وہ پاکستان میں موجود ہیں۔ ان میں سے 1660 افراد کو اہلخانہ سمیت امریکہ منتقلی کی کلیئرنس مل چکی تھی مگر ریفیوجی پروگرام کی معطلی پر ان کی فلائٹس منسوخ کر دی گئیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کسی سیاسی لیڈر کی رہائی سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ معاملہ ہے۔ امریکی صدر سے دنیا کے امن پسندوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ وہ ایک سرمایہ دار آدمی ہیں، وہ دنیا میں جنگ و جدل کے خلاف ہیں۔ وہ جنگ و جدل کے حوالے سے امریکی امیج کو بھی بدلنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ مجموعی طور پر صدر ٹرمپ ایک روشن خیال شخص ہیں۔ وہ بیرونی دنیا پر توجہ دینے اور اپنے وسائل ضائع کرنے کے حق میں نہیں بلکہ یہ وسائل امریکی عوام پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں کئی خطوں کے عوام کو توقع ہے کہ صدر ٹرمپ دور میں ان کے علاقے پرامن بن جائیں گے اور دنیا امریکی شر سے محفوظ رہے گی۔
وصال محمد خان