PTI Suspended negotiations?

معطل مذاکرات؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تھا اور جس سے قوم کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ چلیں محاذ آرائی کا جو سلسلہ گزشتہ انتخابات سے شروع ہو چکا ہے اس میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی اور عوام کو سکون کی چند سانسیں نصیب ہوں گی مگر، ‘اے بسا آرزو کہ خاک شد’ کے مصداق یہ مذاکرات کئی نشیب و فراز کے بعد آخرکار خاتمے پر منتج ہو چکے ہیں۔ سیاسی مذاکرات کی اہمیت سے کسی بھی جمہوری ملک اور معاشرے میں انکار ممکن نہیں بلکہ یہ تو ہم روز ہی سنتے ہیں کہ بڑی بڑی جنگوں کے متحارب فریق آخرکار مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں اور مسائل کا حل مذاکرات سے ہی نکلا ہے، مگر ہمارے ہاں چونکہ نہ تو جمہوریت درست خطوط پر استوار ہو سکی ہے اور نہ ہی ہمارے سیاستدان بلوغت کی مطلوبہ منزل پا سکے ہیں بلکہ یہ اسی سال کی عمر میں بھی بالی عمر کی حرکات و سکنات کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔

حالیہ مذاکرات جو کہ عمران خان کی جانب سے یکطرفہ طور پر شروع کیے گئے تھے اور انہوں نے جیل میں ازخود ہی ایک کمیٹی بنا کر اسے حکومت سے مذاکرات کا ٹاسک سونپ دیا حالانکہ کسی بھی مذاکرات کے لیے متعلقہ فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے مگر یہاں ایسے کسی تردد میں پڑنے کی بجائے اچانک مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی اور ساتھ ہی دھمکی بھی لگا دی گئی کہ اگر فلاں دن تک مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مذاکرات ختم سمجھے جائیں۔ حکومت میں چونکہ تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں، ابتدا میں تو چند حکومتی زعما نے مذاکرات اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ “سیاسی مذاکرات سے انکار نہیں مگر مذاکرات میں طے پانے والے معاہدے پر عمران خان سے عملدرآمد کون کروائے گا؟” اس وقت بہت سے لوگوں نے خواجہ آصف کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور انہیں محاذ آرائی اور کشیدگی جاری رکھنے کا خواہشمند قرار دیا گیا، مگر اب جس بچگانہ طریقے سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلامیہ سامنے آیا ہے خواجہ آصف کا مؤقف درست لگنے لگا ہے۔

مذاکرات کے لیے ابتدا میں تو پی ٹی آئی کا ون پوائنٹ ایجنڈا تھا کہ عمران خان سمیت تمام اسیران کو فی الفور رہا کیا جائے مگر بعدازاں اس میں 9 مئی اور 26 نومبر کے پرتشدد واقعات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی شامل کیا گیا۔ حکومتی کمیٹی نے مطالبات تحریری صورت میں مانگے تو اس پر پوری پارٹی سیخ پا نظر آئی کہ تحریر کی کیا ضرورت ہے، بس ہم کہتے ہیں تو تم عمل کرو۔ مذاکرات کے لیے درکار طور طریقوں پر عمل کرنے کی بجائے پی ٹی آئی قائدین کا انداز ایسا تھا کہ وہ جیسے ہی میڈیا پر اسیران کی رہائی اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کریں بلکہ حکم جاری کریں تو حکومت بجا آوری کے لیے دوڑ پڑے۔ حالانکہ مذاکرات کے یہ اسلوب نہیں ہوا کرتے۔ حکومتی کمیٹی کو پہلی ملاقات میں پی ٹی آئی کمیٹی کو مذاکرات کے طور طریقے سمجھانے پڑے جس کے لیے اس کمیٹی نے جیل میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ پی ٹی آئی نے کمیٹی تو بنا دی تھی مگر اس کے پاس ذرہ برابر اختیار نہیں تھا۔ حکومت مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے کی بات کرتی تو جواب ملتا کہ عمران خان سے ملاقات کروائی جائے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بار بار ملاقاتوں کی فرمائش کی گئی۔ یہاں تک کہ چھٹی والے دن بھی جیل کے دروازے کھول کر ملاقات کا اہتمام کروایا گیا۔

مگر جیسا کہ مذاکرات کے آغاز میں راقم نے ایک تحریر میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات میڈیا پر اچھالے گی۔ بالکل ویسا ہی ہوا، ایک رہنما صبح مذاکرات کے حوالے سے بیان دیتے، تو دوپہر کو دوسرے اس کی تردید کرتے اور شام کو ایک اور رہنما ان دونوں کی تردید کر کے نئی بات سامنے لاتے۔ اس طرح مذاکرات ابتدا سے ہی ڈانواں ڈول تھے اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی جانتے تھے کہ یہ مذاکرات مشقِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے سنجیدگی دکھانے سے قاصر تھی۔ مذاکرات کا آغاز پی ٹی آئی نے کیا تھا اور وہی ان مذاکرات سے فرار کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔ چالیس روز بعد جب ان کمیٹیوں کی بیٹھک ہوئی تو حسب توقع کہا گیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جاتا تو مذاکرات ختم۔ مذاکرات ختم کرنے کے انداز سے ظاہر ہے کہ فیصلہ جلدبازی میں ہوا۔ حکومتی جواب کا انتظار تک نہیں کیا گیا اور مذاکرات خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔

اس دوران آرمی چیف سے گوہر خان اور علی امین گنڈاپور کی ملاقات ہوئی جس پر حکومتی کمیٹی کے ترجمان نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کئی دروازوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے۔ یہ بات خاصی حد تک درست بھی تھی۔ پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات شروع کیے، اس کے بعد اپنی دیرینہ خواہش کے تحت فوج سے روابط بڑھانے کی کوشش کی گئی اور آخر میں امریکہ سے امیدیں وابستہ کی گئیں۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مذاکرات خاتمے کا اعلان اس لیے کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے امریکی صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کے لیے جو لابنگ شروع کر رکھی ہے مذاکرات اس کی راہ میں حائل ہونے کا خدشہ تھا۔ پی ٹی آئی کی شدید خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ عمران خان کے حق میں ایک ٹویٹ ہی کر دیں۔ اگر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا تو شائد امریکی انتظامیہ کا جواب ہوتا کہ جب تمہارے مذاکرات جاری ہیں تو ہم کیوں اس میں مداخلت کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟

اب جبکہ مذاکرات کا سلسلہ معطل، مؤخر یا ختم کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی کمیٹی کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی 28 جنوری کی نشست میں آ کر ہمارا جواب سن لے۔ مگر پی ٹی آئی اپنے مطالبات کا جواب لینے پر بھی آمادہ نہیں جو اس کی غیرسنجیدگی ظاہر کر رہی ہے۔ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کچھ دینے کی بجائے صرف لینے کے لیے مذاکرات کر رہی تھی۔ یہ روئیے سیاسی اور جمہوری کہلانے کے مستحق نہیں۔ جس طرح عمران خان کو ازخود مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانی پڑی اسی طرح قوی امکان ہے کہ مستقبل میں ایک بار پھر انہیں ازخود کمیٹی بنانی پڑے، مگر حالیہ تجربے کے پیش نظر حکومت سے مثبت جواب کی توقع عبث ہوگی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی قائدین سنجیدگی اور متانت کا ثبوت دیتے ہوئے مذاکرات سے راہ فرار اختیار نہ کریں۔ ممکن ہے مستقبل میں آپ مذاکرات کرنا چاہیں اور سنجیدگی بھی ظاہر کریں، مگر اس وقت پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہو کہ آپ کی پیشکش کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ معطل مذاکرات کا سلسلہ وہی سے جوڑا جائے جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔

وصال محمد خان

The US Secretary of State's threat and Mohsin Naqvi's activities

امریکی سیکریٹری خارجہ کی دھمکی اور محسن نقوی کی سرگرمیاں

امریکہ کے نئے سیکرٹری خارجہ ( وزیر داخلہ) مارکو روبیو نے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے افغانستان میں قید امریکیوں کو غیر مشروط طور پر رہا نہیں گیا کیا تو اسامہ بن لادن کی طرح امریکہ افغان لیڈرشپ کے سروں کی قیمت لگادے گا اور یہ اسامہ بن لادن پر لگائی گئی رقم سے زیادہ ہوگی ۔ امریکی سیکرٹری نے میڈیا سے گفتگو اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی دھمکی میں کہا ہے کہ افغانستان میں مبینہ طور پر قید امریکیوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ ان کے مطابق اگر یہ سچ ہے تو ہمیں طالبان کی اعلیٰ قیادت کے سروں کی بڑی قیمت مقرر کرنی ہوگی اور یہ رقم اسامہ بن لادن پر رکھی گئی رقم سے بھی زیادہ ہوگی۔

قبل ازیں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی امداد یا پیکج کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے بلکہ وہاں رہ جانے والے امریکی اسلحہ کی واپسی کا مطالبہ اور اعلان بھی کر رکھا ہے جس کی مالیت تقریباً 8 ارب ڈالرز کہی جارہی ہے ۔ ان پے درپے امریکی اقدامات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اور ان کی قیادت کے ” برے دن ” آگئے ہیں اور ان پر پڑنے والے دباؤ اور متوقع اقدامات کا زیادہ تر فایدہ بلواسطہ پاکستان کو پہنچے گا ۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سینٹ کام نے اسلحہ واپسی کے معاملے پر پاکستان کے بعض متعلقہ اعلیٰ حکام سے رابطے کرتے ہوئے اس کی مدد طلب کرلی ہے۔
پاکستان کے دو معتبر تجزیہ کاروں ابصار عالم اور نجم سیٹھی نے اس پیشرفت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی علاقائی اہمیت میں بوجوہ پھر سے اضافہ ہوگیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ ابصار عالم کے بقول اگر امریکی اسلحہ کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ایک تو اس میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی اور دوسرا یہ کہ چونکہ اس اسلحے کا بڑا حصہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروپ پاکستان کے خلاف استعمال کرتے آرہے ہیں تو اس سے بھی ہمیں فایدہ ہوگا ۔ نجم سیٹھی کے بقول پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بہت گہرے اور پرانے مراسم اور تعلقات قائم ہیں اس لیے ٹرمپ سے بعض حلقوں نے عمران خان وغیرہ کے معاملے میں جو توقعات وابستہ کی ہیں وہ ان کے اندازوں کے مطابق پوری نہیں ہوں گی۔

دوسری جانب امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دورے کے دوران اہم امریکی سیاستدانوں اور حکام سے انسداد دہشت کے معاملات پر گفتگو کی ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ دونوں ممالک دہشتگردی کے خلاف کیا اقدامات کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ میں نے دورہ امریکہ کے دوران چین مخالف ایونٹس میں کوئی شرکت کی ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک مخصوص پارٹی امریکی کانگریس کے بعض ارکان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی مہم جوئی میں مصروف عمل رہی ہے انہوں نے اس ضمن میں بھی ملاقاتیں کیں کیونکہ سیاسی مخالفت کی آڑ میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کرنے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور فورسز روزانہ کی بنیاد پر ان کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہیں۔

اس تمام تر ڈویلپمنٹ کا جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کم ہوتے جارہے ہیں اور جو عناصر پاکستان کی عالمی تنہائی کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں ان کے تجزیے غلط ثابت ہورہے ہیں ۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو خطے کے علاقائی امور کے تناظر میں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ پہلی بار پاکستان کے نہ صرف یہ امریکہ ، چین اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوگئے ہیں بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی حوصلہ افزا ہیں کہ پاکستان ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک علاقائی اتحاد کی تشکیل بھی آخری مراحل میں ہے جس کو روس اور چین کی معاونت بھی حاصل ہے ۔ دوسری جانب کئی دہائیوں کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں غیر معمولی گرمجوشی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جس نے بھارت کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور وہ خود کو خطے میں اکیلا محسوس کرنے لگا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پولیٹیکل اور سول اسٹیک ہولڈرز ان تمام مثبت معاملات کو ہائی لائٹ کرنے سے بے خبر یا لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور ان کی ” سوئی” تاحال ایک مخصوص پارٹی اور اس کے بانی سے متعلق غیر ضروری معاملات پر ” اٹکی ” ہوئی ہے ۔ ان اسٹیک ہولڈرز کو ایک طرح سے فوبیا لاحق ہے جس سے نکلنے کے لئے یہ کوئی عملی کوشش نہیں کررہے جس کے باعث عوام کو ان مثبت اقدامات کی تفصیلات معلوم نہیں ہوپاتیں جو کہ ہوتے آرہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ ن اور حکومت میں شامل دوسرے اسٹیک ہولڈرز دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت تمام معاملات میں ” مدعی ” بن کر اپنا فعال کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں ایک مؤثر میڈیا کمپین ڈیزائن کریں تاکہ عوام کو مایوسی اور پروپیگنڈا گردی کی صورتحال سے نکال دیا جائے۔

عقیل یوسفزئی