Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, March 12, 2025

امریکی سیکریٹری خارجہ کی دھمکی اور محسن نقوی کی سرگرمیاں

امریکہ کے نئے سیکرٹری خارجہ ( وزیر داخلہ) مارکو روبیو نے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے افغانستان میں قید امریکیوں کو غیر مشروط طور پر رہا نہیں گیا کیا تو اسامہ بن لادن کی طرح امریکہ افغان لیڈرشپ کے سروں کی قیمت لگادے گا اور یہ اسامہ بن لادن پر لگائی گئی رقم سے زیادہ ہوگی ۔ امریکی سیکرٹری نے میڈیا سے گفتگو اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی دھمکی میں کہا ہے کہ افغانستان میں مبینہ طور پر قید امریکیوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ ان کے مطابق اگر یہ سچ ہے تو ہمیں طالبان کی اعلیٰ قیادت کے سروں کی بڑی قیمت مقرر کرنی ہوگی اور یہ رقم اسامہ بن لادن پر رکھی گئی رقم سے بھی زیادہ ہوگی۔

قبل ازیں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی امداد یا پیکج کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے بلکہ وہاں رہ جانے والے امریکی اسلحہ کی واپسی کا مطالبہ اور اعلان بھی کر رکھا ہے جس کی مالیت تقریباً 8 ارب ڈالرز کہی جارہی ہے ۔ ان پے درپے امریکی اقدامات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اور ان کی قیادت کے ” برے دن ” آگئے ہیں اور ان پر پڑنے والے دباؤ اور متوقع اقدامات کا زیادہ تر فایدہ بلواسطہ پاکستان کو پہنچے گا ۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سینٹ کام نے اسلحہ واپسی کے معاملے پر پاکستان کے بعض متعلقہ اعلیٰ حکام سے رابطے کرتے ہوئے اس کی مدد طلب کرلی ہے۔
پاکستان کے دو معتبر تجزیہ کاروں ابصار عالم اور نجم سیٹھی نے اس پیشرفت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی علاقائی اہمیت میں بوجوہ پھر سے اضافہ ہوگیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ ابصار عالم کے بقول اگر امریکی اسلحہ کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ایک تو اس میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی اور دوسرا یہ کہ چونکہ اس اسلحے کا بڑا حصہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروپ پاکستان کے خلاف استعمال کرتے آرہے ہیں تو اس سے بھی ہمیں فایدہ ہوگا ۔ نجم سیٹھی کے بقول پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بہت گہرے اور پرانے مراسم اور تعلقات قائم ہیں اس لیے ٹرمپ سے بعض حلقوں نے عمران خان وغیرہ کے معاملے میں جو توقعات وابستہ کی ہیں وہ ان کے اندازوں کے مطابق پوری نہیں ہوں گی۔

دوسری جانب امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دورے کے دوران اہم امریکی سیاستدانوں اور حکام سے انسداد دہشت کے معاملات پر گفتگو کی ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ دونوں ممالک دہشتگردی کے خلاف کیا اقدامات کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ میں نے دورہ امریکہ کے دوران چین مخالف ایونٹس میں کوئی شرکت کی ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک مخصوص پارٹی امریکی کانگریس کے بعض ارکان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی مہم جوئی میں مصروف عمل رہی ہے انہوں نے اس ضمن میں بھی ملاقاتیں کیں کیونکہ سیاسی مخالفت کی آڑ میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کرنے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور فورسز روزانہ کی بنیاد پر ان کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہیں۔

اس تمام تر ڈویلپمنٹ کا جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کم ہوتے جارہے ہیں اور جو عناصر پاکستان کی عالمی تنہائی کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں ان کے تجزیے غلط ثابت ہورہے ہیں ۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو خطے کے علاقائی امور کے تناظر میں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ پہلی بار پاکستان کے نہ صرف یہ امریکہ ، چین اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوگئے ہیں بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی حوصلہ افزا ہیں کہ پاکستان ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک علاقائی اتحاد کی تشکیل بھی آخری مراحل میں ہے جس کو روس اور چین کی معاونت بھی حاصل ہے ۔ دوسری جانب کئی دہائیوں کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں غیر معمولی گرمجوشی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جس نے بھارت کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور وہ خود کو خطے میں اکیلا محسوس کرنے لگا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پولیٹیکل اور سول اسٹیک ہولڈرز ان تمام مثبت معاملات کو ہائی لائٹ کرنے سے بے خبر یا لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور ان کی ” سوئی” تاحال ایک مخصوص پارٹی اور اس کے بانی سے متعلق غیر ضروری معاملات پر ” اٹکی ” ہوئی ہے ۔ ان اسٹیک ہولڈرز کو ایک طرح سے فوبیا لاحق ہے جس سے نکلنے کے لئے یہ کوئی عملی کوشش نہیں کررہے جس کے باعث عوام کو ان مثبت اقدامات کی تفصیلات معلوم نہیں ہوپاتیں جو کہ ہوتے آرہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ ن اور حکومت میں شامل دوسرے اسٹیک ہولڈرز دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت تمام معاملات میں ” مدعی ” بن کر اپنا فعال کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں ایک مؤثر میڈیا کمپین ڈیزائن کریں تاکہ عوام کو مایوسی اور پروپیگنڈا گردی کی صورتحال سے نکال دیا جائے۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket