Kite flying banned in Mardan for 2 months, Section 144 enforced

مردان میں 2ماہ کیلئے پتنگ بازی پر پابندی عائد، دفعہ 144نافذ

مردان ۔ڈپٹی کمشنر مردان ڈاکٹر عظمت اللہ وزیر نے ضلع میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس حکم نامے کے تحت پتنگ بنانے، فروخت کرنے، خریدنے اور اڑانے پر مکمل پابندی ہوگی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ اقدام شہریوں کی حفاظت اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، کیونکہ پتنگ بازی کے دوران کیمیکل والی ڈور اور دھاتی تار کے استعمال سے قیمتی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی اور متعلقہ تھانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری ایکشن لیں۔ ضلعی پولیس اور انتظامیہ عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ قانون پر عمل کریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع متعلقہ حکام کو دیں۔ یہ پابندی دو ماہ کے لیے نافذ رہے گی، اور بعد ازاں اس میں توسیع یا نرمی کا فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔

Kohat: Organized football talent hunt tournament by Pakistan Army

کوہاٹ: پاک فوج کیجانب سےفٹبال ٹیلنٹ ہنٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد

کوہاٹ میں پاک فوج کی جانب سے ضم اضلاع سے انڈر 16 فٹبال ٹیلنٹ ہنٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ ضم اضلاع سے کل 8 ٹیموں نے مقابلوں میں حصہ لیا۔ ضم اضلاع سے شمالی و جنوبی (اپر اور لوئر) وزیرستان, باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئ اور کرم کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ سخت مقابلوں کے بعد مہمند کی ٹیم فاتح جبکہ شمالی وزیرستان کی ٹیم رنراپ قرار پائی۔ جیتنے والی 2 ٹیموں کو پاک آرمی فٹبال ڈیویلپمنٹ کیلئے منتحب کر لیا گیا ۔مقامی کمانڈر نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ان میں انعامات تقسیم کیے۔ مقابلوں کا مقصد نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں کھیلوں کا روجحان پروان چڑھانا تھا ۔ حصہ لینے والے نوجوانوں اور علاقہ مشران نے پاک فوج کی جانب سے ٹورنامنٹ کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا ۔

Return of Afghan refugees

افغان مہاجرین کی واپسی

ریاست پاکستان نے افغان شہریوں کو31مارچ2025ء تک پاکستان چھوڑکراپنے ملک واپس جانے کاحکم دیاہے ۔وزارت داخلہ نے غیرقانونی غیرملکیوں کی وطن واپسی پروگرام کے تحت افغان سٹیزن کارڈہولڈرزکو31مارچ تک پاکستان چھوڑنے کاحکم دیتے ہوئے خبر دار کیاہے کہ اگرایسانہ کیاگیاتوانہیں یکم اپریل سے ملک بدری کاسامناکرناپڑے گا۔حکومت کے مطابق غیرقانونی غیرملکیوں کی وطن واپسی کا پروگرام(آئی ایف آرپی)یکم نومبر2023ء سے نافذالعمل ہے جس کے تحت غیرقانونی طورپرمقیم غیرملکیوں کی مرحلہ وارواپسی کاعمل جار ی ہے اس مرحلے میں دستاویزات کے بغیریاجعلی دستاویزات کے حامل افرادکوواپس بھجوایاگیا اب تازہ فیصلے کے مطابق افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی ) رکھنے والے مہاجرین کوبھی اس ماہ کی آخری تاریخ تک مہلت دی گئی ہے ۔

حکومت پاکستان نے تمام غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں اوراے سی سی رکھنے والوں کوہدایت دی ہے کہ مقررہ وقت تک رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں بصورت دیگریکم اپریل 2025ء سے انکی ملک بدری کاعمل شروع کیاجائیگا۔ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق غیرقانو نی طورپرمقیم غیرملکیوں خصوصاافغان شہریوں کو باعز ت واپسی کیلئے خاصاوقت دیاجاچکاہے اسکے باوجودواپسی کاعمل مکمل نہ ہونے کایہی مطلب لیاجائیگا کہ یہ لوگ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔حکومت پاکستان اورسیکیورٹی ادارے کسی افغان شہری کیساتھ غیرانسانی یاظالمانہ سلوک روانہیں رکھناچاہتے اسلئے واپسی کے دوران خوراک اورطبی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں ۔ وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان ایک مہمان نواز ملک ہے اورایک ذمہ دارریاست کے طورپربین الاقوامی معاہدوں،وعدوں اورانسانی حقوق کی پاسدرای پرعمل پیراہے۔

تاہم یہاں رہائش پذیرغیرملکیوں کوملکی قوانین کی مکمل پاسداری اورقانونی تقاضے پورے کرنے ہونگے ، غیرقانونی طورپرمقیم افغان مہاجرین کی واپسی پاکستا ن کیلئے ہمیشہ سے مشکل عمل رہاہے ۔پاکستان دنیاکاوہ واحدملک ہے جس نے پڑوسی برادرملک کے شہریوں کومصیبت کے وقت پناہ دے رکھی ہے اوریہ پناہ کوئی دوچاردن ،ہفتے یامہینے کیلئے نہیں بلکہ 1979ء سے جب سویت یونین افغانستان پرحملہ آورہواتوابتدائی طورپرہزاروں اور بعدازاں لاکھوں افغان شہریوں نے پناہ کی غرض سے پاکستان کارخ کیا۔ پاکستا نی قوم نے اپنی روایت کے مطابق ان افغان مہاجرین کو مہمانوں کادرجہ دیااورحکومت انہیں ہرقسم کی سہولیات فراہمی کیلئے کوشاں رہی ۔

اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکاہے وہ سویت یونین جس کے شرسے افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لینے پرمجبورہوئے تھے اسے راہی ملک عدم ہوئے بھی تیس سال سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے اسکے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کاسلسلہ جاری رہا، پھرطالبان برسراقتدارآئے ،اسکے بعدامریکہ افغانستان پرحملہ آورہوا اوراسکے زیرسایہ حامدکرزئی اوراشرف غنی نے باری باری بیس سال تک حکومت کی ۔مگراس دوران یہ افغان مہاجرین پاکستان میں ہی مقیم رہے ۔انکی قیام کے سبب پاکستان کوگوناگوں مصائب ومشکلات کاسامنارہا سویت یونین کی جانب سے افغان مہاجرین کی آڑ میں ایجنٹ بھیجے گئے جنہوں نے پاکستان میں امن وامان کوتہہ وبالاکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی یہاں کے بازاروں ،سکولوں ،مساجد،مدرسوں اورگلی کوچوں میں بم دھماکے ہونے لگے ،افغان مہاجرین کے سبب اسلحہ ،کلاشنکوف ،وی سی آراورہیروئن کلچرنے پاکستان کومعاشی اورمعاشرتی طور پرناقابل تلافی نقصان سے دوچارکیامگرپاکستان یہ نقصان محض برادراسلامی ملک اوراسکے شہریوں کی خاطربرداشت کرتارہا۔

پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تا کہ اسکے باشندے اپنے وطن میں رہ کرملک کی تعمیرو ترقی کیلئے کام کریں اور دونوں برادر پڑوسی ملک امن وسکون سے رہیں ۔مگرافغانستان کی موجودہ حکومت کاروئیہ ناقابل فہم حدتک معاندانہ ہے۔ اس نے پاکستان کے مفروروں اوریہاں حملے کرنے والوں کوپناہ دے رکھی ہے اور انہیں مالی امدادبھی دیاجا رہاہے ان دہشت گرداورخوارج نے افغانستان میں اڈے اورکیمپ بنارکھے ہیں جہاں پاکستان کیساتھ لڑنے اوریہاں حملے کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔پاکستان بارہاسفارتی سطح پریہ معاملہ اٹھاچکاہے مگرافغان عبوری حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔بلکہ وہ ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے برملاپاکستان کویہ مشورہ دے رہاہے کہ انکے ہاں پناہ گزیں ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔

پاکستان نے یہ شرط بھی قبول کرکے کالعدم تنظیم کیساتھ مذاکرات کئے مگران مذاکرات کاکیانتیجہ نکلناتھاجب ٹی ٹی پی پاکستان کے سابقہ قبائلی اضلاع پراپنی عملداری قائم کرنیکی خواہاں ہو۔ مطالبات تسلیم نہ ہونے پرپاکستان میں ان دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلنے کاجوسلسلہ شروع کیاہے وہ انہی افغان مہاجرین کی آڑمیں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اوریہاں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔ جس ملک میں افغانستان کے پچاس لاکھ افرادیاتوماضی میں پناہ گزیں رہ چکے ہیں یاپھراب بھی دس پندرہ لاکھ کی تعدادمقیم ہے اسی ملک کے بچوں کوسکولوں اورمدرسوں میں قتل کیاگیا،خواتین اور بزرگو ں کوگھروں ،بازاروں اورمساجدمیں نشانہ بنایاگیااورجیدعلماء کوٹارگٹ کرنے کایہ نارواسلسلہ افغان مہاجرین کی آڑمیں دوام پذیرہے ۔ پاکستان نے ڈیڑھ سال سے افغان مہاجرین کی واپسی کاعمل شروع کر رکھاہے مگراس سلسلے میں ریاست کی جانب سے خاصی نرمی برتی جا رہی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھرکم وبیش ایک ماہ کاوقت دیاگیاہے۔

6 مارچ تک 8 لاکھ 68 ہزار8 سو71 افغان مہاجرین کی واپسی عمل میں آچکی ہے ۔ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان اورایران کوتتحمل کاحکم دیاگیاہے مگرنجانے 45سالہ تحمل انکی نظروں سے اوجھل کیوں ہے ؟ ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ افغان باشندے برضاورغبت اپنے وطن کوواپسی یقینی بنائیں۔کاروباری افراداوردیگرکیلئے قانونی طریقہء کار موجود ہے ۔جس پرعملدرآمدیقینی بنانے کیلئے پاکستان پرعزم ہے۔

وصال محمد خان

Peshawar traffic police crackdown against encroachment mafia

ٹریفک پولیس پشاور نے تجاوزات مافیا کیخلاف کریک ڈاؤن

چیف ٹریفک آفیسر ہارون رشید خان کی ہدایت پر سٹی ٹریفک پولیس پشاور کے اہلکاروں کی جانب سے شہر بھر میں تجاوزات مافیا کو رضا کارانہ طور پر تجاوزات ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تاہم تجاوزات مافیا کی جانب سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا تھا جس پر سٹی ٹریفک پولیس پشاور کے اہلکاروں کی جانب سے کارروائیاں کی گئیں جس کے تحت آپریشن کے دوران 70 افراد کو گرفتار کر کے 3 ٹرک سامان قبضے میں لے لیا۔ چیف ٹریفک آفیسر ہارون رشید خان نے ٹریفک ہیڈ کوارٹر گلبہار سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا ہے کہ تجاوزات مافیا رضا کارانہ طور پر تجاوزات کا خاتمہ کریں بصورت دیگر ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی کیونکہ تجاوزات قائم کرنے سے ٹرانسپورٹروں اور راہ گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہری گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پارکنگ سٹینڈ میں کھڑی کریں جبکہ نو پارکنگ زون میں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں کھڑی کرنیوالوں کی گاڑیاں ٹرمینل میں بند کی جائیں گی۔

Khyber: Jirga of Pak-Afghan elders agree on ceasefire till March 11

خیبر: پاک افغان عمائدین کا جرگہ11مارچ تک فائر بندی پر اتفاق

طورخم شاہراہ پر جاری کشیدگی کم کرنے اورشاہراہ کھولنے کیلئے پاک افغان عمائدین پر مشتمل جرگہ ہوا  ۔ جس میں سیز فائر پر اتفاق کیا گیا۔ 11 مارچ تک فائر بندی پر اتفاق، سرحد کے دونوں جانب تعمیرات پر پابندی ہوگی۔ ممبران 11 مارچ کو افغان فورسز کی متنازع تعمیرات کا جائزہ لیں گے۔ تعمیرات تنازع حل ہونے پرطورخم بارڈر کھولا جائےگا۔ دوسری جانب کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ پاک افغان طورخم شاہراہ  آج 17ویں روز بھی بند ہے۔طورخم تجارتی گزرگاہ بند ہونےسے یومیہ 3ملین ڈالر کانقصان ہوتاہے۔کسٹم حکام کے مطابق طورخم گزرگاہ سے یومیہ 10ہزارافراد کی آمدورفت ہوتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا دہشت گردی پر انتہائی سخت ردعمل

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جہاد کے نام پر جاری کارروائیوں کو کھلی دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ علماء اور معصوم عوام کو جہاد کے نام پر شہید کرنے والے ظالم اور قاتل تو ہوسکتےہیں جہادی یا مسلمان نہیں اس لیے جو عناصر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔
گزشتہ روز دارالعلوم حقانیہ میں خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مساجد ، علماء اور شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد ہیں اور وہ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو اسلام کے نام پر جاری کسی جہاد یا کوشش کا نام نہیں دے سکتے ۔ ان کے بقول ان کے پاس پہلے سے مولانا حامد الحق پر حملے کی کچھ معلومات تھیں اور اس بنیاد پر انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ بھی کردیا تھا تاہم یہ بات قابل تشویش ہے کہ جہاد کے نام پر علماء ، مساجد اور مدارس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ان کے مادر علمی دارالعلوم حقانیہ کو بھی سفاکی کے ساتھ نشانہ بناتے ہوئے مولانا حامد الحق اور دیگر معصوم لوگوں کو شہید کردیا گیا ۔ مولانا نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ اس سے قبل بھی مولانا حسن جان اور ایسے بہت سے علماء کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ مدارس اور مساجد پر متعدد حملے کیے گئے ہیں مگر اب یہ سلسلہ ناقابل برداشت ہوچکا ہے اور ہم جہاد سمیت کسی بھی جواز کی آڑ میں ایسے حملوں کی نہ تو اجازت دے سکتے ہیں اور نا ہی اس صورتحال پر خاموش رہیں گے کیونکہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور اس کو دہشتگردی کے بغیر دوسرا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
اس سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی جماعتوں کے قائدین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو نشانہ بنانے کی کھل کر مذمت کی ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشتگردی کے معاملے پر تمام علماء ایک ” پیج ” پر نہیں ہیں اور متعدد نہ صرف طالبان وغیرہ کی ماضی میں سرپرستی کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی وکالت بھی کی جاتی رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کو کافی عرصے سے خود سنگین نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کی پارٹی داعش خراسان کی ہٹ لسٹ پر ہے ۔ اسی طرح ان تمام علماء کو خطرات لاحق ہیں جنہوں نے ” پیغام پاکستان” کی حمایت کی ہے ۔ ایسے میں لازمی ہے کہ علماء اور سیاسی قائدین کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے اور مزید سانحات کے ” انتظار ” پر مبنی رویہ ترک کیا جائے۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت کے کردار کو کسی بھی لحاظ سے قابل اطمینان نہیں کہا جاسکتا ۔ پی ٹی آئی آج کل مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اس تناظر میں مولانا کو چاہیے کہ وہ اس پارٹی کے قائدین کے ساتھ جاری دہشت گردی اور اس کے تناظر میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کردار پر بھی گفتگو کرتے ہوئے دباؤ بڑھائیں کیونکہ محض مذمتی اور رسمی بیانات سے بات نہیں بننے والی ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ علماء اور سیاسی قائدین کو دہشتگردی اور شرپسندی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
عقیل یوسفزئی