جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جہاد کے نام پر جاری کارروائیوں کو کھلی دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ علماء اور معصوم عوام کو جہاد کے نام پر شہید کرنے والے ظالم اور قاتل تو ہوسکتےہیں جہادی یا مسلمان نہیں اس لیے جو عناصر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔
گزشتہ روز دارالعلوم حقانیہ میں خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مساجد ، علماء اور شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد ہیں اور وہ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو اسلام کے نام پر جاری کسی جہاد یا کوشش کا نام نہیں دے سکتے ۔ ان کے بقول ان کے پاس پہلے سے مولانا حامد الحق پر حملے کی کچھ معلومات تھیں اور اس بنیاد پر انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ بھی کردیا تھا تاہم یہ بات قابل تشویش ہے کہ جہاد کے نام پر علماء ، مساجد اور مدارس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ان کے مادر علمی دارالعلوم حقانیہ کو بھی سفاکی کے ساتھ نشانہ بناتے ہوئے مولانا حامد الحق اور دیگر معصوم لوگوں کو شہید کردیا گیا ۔ مولانا نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ اس سے قبل بھی مولانا حسن جان اور ایسے بہت سے علماء کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ مدارس اور مساجد پر متعدد حملے کیے گئے ہیں مگر اب یہ سلسلہ ناقابل برداشت ہوچکا ہے اور ہم جہاد سمیت کسی بھی جواز کی آڑ میں ایسے حملوں کی نہ تو اجازت دے سکتے ہیں اور نا ہی اس صورتحال پر خاموش رہیں گے کیونکہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور اس کو دہشتگردی کے بغیر دوسرا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
اس سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی جماعتوں کے قائدین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو نشانہ بنانے کی کھل کر مذمت کی ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشتگردی کے معاملے پر تمام علماء ایک ” پیج ” پر نہیں ہیں اور متعدد نہ صرف طالبان وغیرہ کی ماضی میں سرپرستی کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی وکالت بھی کی جاتی رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کو کافی عرصے سے خود سنگین نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کی پارٹی داعش خراسان کی ہٹ لسٹ پر ہے ۔ اسی طرح ان تمام علماء کو خطرات لاحق ہیں جنہوں نے ” پیغام پاکستان” کی حمایت کی ہے ۔ ایسے میں لازمی ہے کہ علماء اور سیاسی قائدین کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے اور مزید سانحات کے ” انتظار ” پر مبنی رویہ ترک کیا جائے۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت کے کردار کو کسی بھی لحاظ سے قابل اطمینان نہیں کہا جاسکتا ۔ پی ٹی آئی آج کل مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اس تناظر میں مولانا کو چاہیے کہ وہ اس پارٹی کے قائدین کے ساتھ جاری دہشت گردی اور اس کے تناظر میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کردار پر بھی گفتگو کرتے ہوئے دباؤ بڑھائیں کیونکہ محض مذمتی اور رسمی بیانات سے بات نہیں بننے والی ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ علماء اور سیاسی قائدین کو دہشتگردی اور شرپسندی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
عقیل یوسفزئی
