Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, March 10, 2025

افغان مہاجرین کی واپسی

ریاست پاکستان نے افغان شہریوں کو31مارچ2025ء تک پاکستان چھوڑکراپنے ملک واپس جانے کاحکم دیاہے ۔وزارت داخلہ نے غیرقانونی غیرملکیوں کی وطن واپسی پروگرام کے تحت افغان سٹیزن کارڈہولڈرزکو31مارچ تک پاکستان چھوڑنے کاحکم دیتے ہوئے خبر دار کیاہے کہ اگرایسانہ کیاگیاتوانہیں یکم اپریل سے ملک بدری کاسامناکرناپڑے گا۔حکومت کے مطابق غیرقانونی غیرملکیوں کی وطن واپسی کا پروگرام(آئی ایف آرپی)یکم نومبر2023ء سے نافذالعمل ہے جس کے تحت غیرقانونی طورپرمقیم غیرملکیوں کی مرحلہ وارواپسی کاعمل جار ی ہے اس مرحلے میں دستاویزات کے بغیریاجعلی دستاویزات کے حامل افرادکوواپس بھجوایاگیا اب تازہ فیصلے کے مطابق افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی ) رکھنے والے مہاجرین کوبھی اس ماہ کی آخری تاریخ تک مہلت دی گئی ہے ۔

حکومت پاکستان نے تمام غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں اوراے سی سی رکھنے والوں کوہدایت دی ہے کہ مقررہ وقت تک رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں بصورت دیگریکم اپریل 2025ء سے انکی ملک بدری کاعمل شروع کیاجائیگا۔ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق غیرقانو نی طورپرمقیم غیرملکیوں خصوصاافغان شہریوں کو باعز ت واپسی کیلئے خاصاوقت دیاجاچکاہے اسکے باوجودواپسی کاعمل مکمل نہ ہونے کایہی مطلب لیاجائیگا کہ یہ لوگ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔حکومت پاکستان اورسیکیورٹی ادارے کسی افغان شہری کیساتھ غیرانسانی یاظالمانہ سلوک روانہیں رکھناچاہتے اسلئے واپسی کے دوران خوراک اورطبی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں ۔ وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان ایک مہمان نواز ملک ہے اورایک ذمہ دارریاست کے طورپربین الاقوامی معاہدوں،وعدوں اورانسانی حقوق کی پاسدرای پرعمل پیراہے۔

تاہم یہاں رہائش پذیرغیرملکیوں کوملکی قوانین کی مکمل پاسداری اورقانونی تقاضے پورے کرنے ہونگے ، غیرقانونی طورپرمقیم افغان مہاجرین کی واپسی پاکستا ن کیلئے ہمیشہ سے مشکل عمل رہاہے ۔پاکستان دنیاکاوہ واحدملک ہے جس نے پڑوسی برادرملک کے شہریوں کومصیبت کے وقت پناہ دے رکھی ہے اوریہ پناہ کوئی دوچاردن ،ہفتے یامہینے کیلئے نہیں بلکہ 1979ء سے جب سویت یونین افغانستان پرحملہ آورہواتوابتدائی طورپرہزاروں اور بعدازاں لاکھوں افغان شہریوں نے پناہ کی غرض سے پاکستان کارخ کیا۔ پاکستا نی قوم نے اپنی روایت کے مطابق ان افغان مہاجرین کو مہمانوں کادرجہ دیااورحکومت انہیں ہرقسم کی سہولیات فراہمی کیلئے کوشاں رہی ۔

اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکاہے وہ سویت یونین جس کے شرسے افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لینے پرمجبورہوئے تھے اسے راہی ملک عدم ہوئے بھی تیس سال سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے اسکے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کاسلسلہ جاری رہا، پھرطالبان برسراقتدارآئے ،اسکے بعدامریکہ افغانستان پرحملہ آورہوا اوراسکے زیرسایہ حامدکرزئی اوراشرف غنی نے باری باری بیس سال تک حکومت کی ۔مگراس دوران یہ افغان مہاجرین پاکستان میں ہی مقیم رہے ۔انکی قیام کے سبب پاکستان کوگوناگوں مصائب ومشکلات کاسامنارہا سویت یونین کی جانب سے افغان مہاجرین کی آڑ میں ایجنٹ بھیجے گئے جنہوں نے پاکستان میں امن وامان کوتہہ وبالاکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی یہاں کے بازاروں ،سکولوں ،مساجد،مدرسوں اورگلی کوچوں میں بم دھماکے ہونے لگے ،افغان مہاجرین کے سبب اسلحہ ،کلاشنکوف ،وی سی آراورہیروئن کلچرنے پاکستان کومعاشی اورمعاشرتی طور پرناقابل تلافی نقصان سے دوچارکیامگرپاکستان یہ نقصان محض برادراسلامی ملک اوراسکے شہریوں کی خاطربرداشت کرتارہا۔

پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تا کہ اسکے باشندے اپنے وطن میں رہ کرملک کی تعمیرو ترقی کیلئے کام کریں اور دونوں برادر پڑوسی ملک امن وسکون سے رہیں ۔مگرافغانستان کی موجودہ حکومت کاروئیہ ناقابل فہم حدتک معاندانہ ہے۔ اس نے پاکستان کے مفروروں اوریہاں حملے کرنے والوں کوپناہ دے رکھی ہے اور انہیں مالی امدادبھی دیاجا رہاہے ان دہشت گرداورخوارج نے افغانستان میں اڈے اورکیمپ بنارکھے ہیں جہاں پاکستان کیساتھ لڑنے اوریہاں حملے کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔پاکستان بارہاسفارتی سطح پریہ معاملہ اٹھاچکاہے مگرافغان عبوری حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔بلکہ وہ ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے برملاپاکستان کویہ مشورہ دے رہاہے کہ انکے ہاں پناہ گزیں ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔

پاکستان نے یہ شرط بھی قبول کرکے کالعدم تنظیم کیساتھ مذاکرات کئے مگران مذاکرات کاکیانتیجہ نکلناتھاجب ٹی ٹی پی پاکستان کے سابقہ قبائلی اضلاع پراپنی عملداری قائم کرنیکی خواہاں ہو۔ مطالبات تسلیم نہ ہونے پرپاکستان میں ان دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلنے کاجوسلسلہ شروع کیاہے وہ انہی افغان مہاجرین کی آڑمیں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اوریہاں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔ جس ملک میں افغانستان کے پچاس لاکھ افرادیاتوماضی میں پناہ گزیں رہ چکے ہیں یاپھراب بھی دس پندرہ لاکھ کی تعدادمقیم ہے اسی ملک کے بچوں کوسکولوں اورمدرسوں میں قتل کیاگیا،خواتین اور بزرگو ں کوگھروں ،بازاروں اورمساجدمیں نشانہ بنایاگیااورجیدعلماء کوٹارگٹ کرنے کایہ نارواسلسلہ افغان مہاجرین کی آڑمیں دوام پذیرہے ۔ پاکستان نے ڈیڑھ سال سے افغان مہاجرین کی واپسی کاعمل شروع کر رکھاہے مگراس سلسلے میں ریاست کی جانب سے خاصی نرمی برتی جا رہی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھرکم وبیش ایک ماہ کاوقت دیاگیاہے۔

6 مارچ تک 8 لاکھ 68 ہزار8 سو71 افغان مہاجرین کی واپسی عمل میں آچکی ہے ۔ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان اورایران کوتتحمل کاحکم دیاگیاہے مگرنجانے 45سالہ تحمل انکی نظروں سے اوجھل کیوں ہے ؟ ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ افغان باشندے برضاورغبت اپنے وطن کوواپسی یقینی بنائیں۔کاروباری افراداوردیگرکیلئے قانونی طریقہء کار موجود ہے ۔جس پرعملدرآمدیقینی بنانے کیلئے پاکستان پرعزم ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket