خیبرپختونخوا اور بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے بعض سیاسی حلقے ریاست دشمنی کی آڑ میں ان دہشت گرد گروپوں کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے باعث دہشت گردوں کو حوصلہ ملتا ہے اور فورسز کی حوصلہ شکنی کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے ۔
گزشتہ روز کویٹہ سے پشاور انیوالی جعفر ایکسپریس کو کالعدم بی ایل اے کے درجنوں حملہ آوروں نے نہ صرف یہ کہ اڑانے کی کوشش کی بلکہ سینکڑوں مسافروں کو ڈھال بناکر یرغمال بھی بنایا ۔ سیکورٹی فورسز نے اس نازک صورتحال کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے لمبا ترین اور خطرناک آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں کئی گھنٹوں کی کارروائیوں کے بعد دو درجن سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا اور تادم تحریر مزید اقدامات جاری ہیں ۔ 150 مسافروں کو رہائی دلائی گئی جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی طرح پاکستان تحریک انصاف اور دیگر ریاست مخالف حلقوں نے اس نازک صورتحال پر بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے اس کھلی دہشتگردی کو ریاست مخالف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرنے کی روش اپنائی جس کے باعث کنفیوژن پھیلانے کا راستہ ہموار کیا گیا اور معاملے کی حساسیت کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذمت یا واضح مخالفت کی بجائے اس واقعے کو سیکورٹی فورسز کی ناکامی کا نام دیا گیا حالانکہ خیبرپختونخوا کو جس بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اس کی روک تھام میں اس پارٹی کی صوبائی حکومت مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوتی آرہی ہے اور عوام کو سخت تشویش لاحق ہے ۔ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی کوششوں میں یہ پارٹی کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آتی ہے اور اس تمام صورتحال کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت دہشت گرد گروپوں کو سیاسی سرپرستی فراہم کرتی آرہی ہے جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ناقابل برداشت جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔
جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حالیہ حملے میں سب سے زیادہ جو مسافر متاثر ہوئے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے کیونکہ اس ریل گاڑی نے پشاور آنا تھا ۔ اس سے قبل نومبر 2024 میں بھی اس گاڑی کے سواریوں کو گاڑی کی روانگی سے قبل کویٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں درجنوں افراد شہید ہوگئے تھے ۔ بی ایل اے نہ صرف یہ کہ فورسز کو نشانہ بناتی آرہی ہے بلکہ عوام کو بھی مسلسل کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے جو کہ ایک تشویش ناک اور قابل مذمت عمل ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے ” شوق” میں عوام کو نشانہ بنانے والے گروپوں کی سرپرستی اور وکالت چھوڑ کر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال پر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر آکر معاملات کی سنگینی اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور منفی رویوں اور پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے ۔
عقیل یوسفزئی
