خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

حکمران جماعت اور اپوزیشن کے سیاسی محاذ

صوبائی حکمران جماعت گرینڈاپوزیشن الائنس بنانے کیلئے دوڑدھوپ میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان سے امیدیں وابستہ کی گئی ہیں کہ وہ اپوزیشن اتحادمیں شامل ہوکراحتجاجی تحریک کی قیادت کرینگے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی آرزوئیں پوری ہوکر عمران خان کی رہائی سمیت وفاقی حکومت کی رخصتی بھی عمل میں آجائیگی۔ حکمران جماعت گزشتہ ایک برس کے دوران متعدد بار اسلام آباد اور پنجاب پر چڑھائی کی ناکام کوششیں کرچکی ہے ان کوششوں سے عمران خان کی رہائی عمل میں آسکی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑ سکا ہے بلکہ اسکے نتیجے میں پارٹی کارکنوں کا مورال گر چکا ہے۔ کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث پارٹی تقریباً تتر بتر ہوچکی ہے کوئی دھڑا وزیراعلیٰ کی رخصتی کیلئے کوشاں ہے تو کوئی انہیں بچانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ پارٹی کے کسی فورم سے اب علی امین کیلئے خیر سگالی جذبات کا اظہار مفقود ہوچکا ہے۔ ایک جانب پارٹی کے اعلیٰ سطحی وفود مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں اور اتحاد کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ نے مولانا کو آڑے ہاتھوں لے کر انکے خلاف دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ ان اقوال و افعال سے واضح ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی مربوط سیاسی لائحہ عمل موجود نہیں۔

پشاور میں تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش

گزشتہ ہفتے پارٹی کے پشاور سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ، سینیئر رہنماؤں اور تنظیمی عہدیداروں پر مشتمل کانفرنس منعقد کی گئی جس کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پشاور تحریک انصاف کا گڑھ ہے مگر اسکی ترقی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، یہاں کے ارکان پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے سے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، پشاور کو صوبائی دارالحکومت کی حیثیت سے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا ہم پلہ ہونا چاہئے، عوام نے مسلسل تیسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ سے نوازا ہے مگر حکومت کے بارے میں ارکان پارلیمنٹ اور عوام کی رائے مایوس کن ہے، اس کانفرنس کا مقصد صوبائی حکومت سے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کا مطالبہ کرنا تھا۔ اداروں کے بورڈز آف گورنرز اور دیگر اعزازی عہدوں پر من پسند تقرریاں ہو رہی ہیں، کانفرنس کے اعلامئے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹرینز کے کانفرنس کا اصل مقصد یہ تھا کہ انکے خیال میں وزیر اعلیٰ پشاور اور دیگر اضلاع کے فنڈز ڈی آئی خان میں خرچ کر رہے ہیں۔ مذکورہ کانفرنس وزیراعلیٰ پر دباؤ بڑھانے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی ارکان صوبائی اسمبلی نے پشاور ہائیکورٹ کے سامنے احتجاج کیا۔ ارکان اسمبلی نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے اور سینیٹ انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔ احتجاج کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان شریک ہوں گے، مگر اسمبلی سے ہائیکورٹ تک بمشکل 50 میٹر کے “لانگ مارچ” میں دوچار وزرا اور آٹھ دس ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 90 سے زیادہ ہے، اس طرح خیبرپختونخوا سے 35 ممبران قومی اسمبلی ہیں، 16 وزرا، 12 معاونین خصوصی اور چار مشیروں میں سے جس تعداد نے شرکت کی اس سے سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر عمران خان اور بشریٰ کی رہائی کے حوالے سے نعرے درج تھے۔ صوبائی وزیر تعلیم مینا خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بانی اور انکی اہلیہ کو رہا کیا جائے، سینیٹ انتخابات اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو عید کے بعد ہم سڑکوں پر ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمان کی سیاسی سرگرمیاں اور موقف

مولانا فضل الرحمان ایک جانب تو پی ٹی آئی کو انگیج رکھے ہوئے ہیں، دوسری جانب وہ عمرہ کی ادائیگی سے وطن واپسی پر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ آئے اور مولانا حامد الحق کی شہادت پر لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے دہشت گردوں کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ “عالم دین کے خلاف بندوق اٹھانا جہاد نہیں، تنگ نظری اور دہشت گردی ہے، تم مجاہد نہیں مجرم اور قاتل ہو”، ابھی مولانا سمیع الحق کا غم تازہ تھا کہ انکے فرزند کو بھی شہید کر دیا گیا، دارالعلوم حقانیہ کے درودیوار غمزدہ نظر آ رہے ہیں، اس حملے کا دکھ اپنے دل کے قریب محسوس کیا۔ حامد الحق ایک بے ضرر انسان تھے، کسی مسلمان کی زندگی سے کھیلنے کو جہاد یا اسلام نہیں قرار دیا جا سکتا، کوئی بندوق کسی عالم دین کے خلاف کیوں استعمال کی جا سکتی ہے؟ مساجد میں ذکر و اذکار اور عبادات کے وقت انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں، یہ لوگ مساجد اور علماء کو نشانہ بنا کر جنت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مولانا حسن جان اور حامد الحق کے قاتل مجاہد نہیں، مجرم ہیں۔

پرویز خٹک کی سیاسی تعلقات اور شمولیت

پرویز خٹک نے وفاقی مشیر داخلہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ انکے بھائی لیاقت خٹک اور بھتیجے احد خٹک پہلے ہی جے یو آئی کا حصہ ہیں۔ جے یو آئی کی مقامی قیادت اور عہدیداروں نے پرویز خٹک کی شمولیت پر تحفظات بھی ظاہر کئے مگر وہ اچانک وزیراعظم کے مشیر بن گئے۔ جس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ پرویز خٹک نے مولانا کو “سجی دکھا کر کبھی ماری” ہے۔ پرویز خٹک اور انکے بھائی لیاقت خٹک کے درمیان گزشتہ چار برس سے شدید اختلافات تھے جن کے راضی نامے کے طور پر ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں کارکنوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی، جو لیاقت خٹک، انکے فرزند احد خٹک اور پرویز خٹک کے اپنے کارکن تھے۔ پرویز خٹک گزشتہ عام انتخابات تک اپنی پارٹی تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے چیئرمین تھے مگر یہ پارٹی اب سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے سپرد ہو چکی ہے۔

وفاقی حکمران جماعتوں کی خیبرپختونخوا کی صورتحال پر تشویش

وفاقی حکمران جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں گورنر فیصل کریم کنڈی کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا کی مجموعی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔ بلاول بھٹو اور وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر منعقدہ اجلاس میں خیبرپختونخوا کی بد امنی، معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس نے صوبے میں پائیدار امن سمیت ترقی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اور جدوجہد پر اتفاق کیا، ساتھ ہی صوبے کے معروضی حالات پر ہم خیال جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بدامنی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف خط لکھنے کا فیصلہ

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی، پختونوں کی نسل کشی اور بدامنی پر صدر مملکت کو کھلا خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان اے این پی کے مطابق خط میں صدر مملکت کو دونوں صوبوں میں پختونوں اور بلوچوں کی نسل کشی، بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں اور پس پردہ عوامل سے آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستان بھر میں دہشت گردی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھنے کی بجائے نظرانداز کیا جا رہا ہے جو قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے سدباب کیلئے حکمت عملی وضع کی جائے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ تمام مکاتب فکر کو اس سنگین مسئلے کے خلاف اعتماد میں لیا جائے۔

سانحہ جعفر ایکسپریس

وصال محمد خان
پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کاسامناکررہاہے ۔بزدل دہشت گرداکثروبیشترعوامی مقامات مساجد،مدارس ،سکولوں،ہسپتالوں ، پبلک ٹرانسپورٹ اوربازاروں کونشانہ بناتے ہیں ،سیکیورٹی فورسزکے قافلوں اورتنصیبات پرحملے کئے جاتے ہیں معصوم اوربے گناہ انسانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزادی جاتی ہے اوران کاخون بہایاجاتاہے ۔بے گناہ انسانوں کاخون بہانے والے چاہے کسی بھی روپ میں ہوں قابل مذمت ہیں اورانہیں کھل کرعوام کی جان ومال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ دہشت گردوں کی پشت پرچونکہ پاکستان دشمن قوتیں موجودہیں اس لئے یہ دیدہ دلیری سے خون کی ہولی کھیلتے ہیں ۔بیرونی قوتوں کی ایماء پریہ دہشت گرد کوئی کارروائی شروع کردیتے ہیں مگراسے منطقی انجام تک پاک فوج اورسیکیورٹی ادارے پہنچاتے ہیں۔

ان بے غیرت دہشت گردوں کاکوئی بزدلانہ حملہ کبھی کامیاب نہ رہااگرخونریزی کی دلدادہ قوتیں کامیابی حملے کرنے اوربے گناہوں کاخون بہانے کوسمجھتے ہیں تویہ مذموم کامیابی انہیں ضرورحاصل ہوجاتی ہے مگرانہیں بہت جلدذلت آمیز شکست کاسامنابھی کرناپڑتاہے ۔کوئٹہ سے پشاورجانے والی ٹرین جعفرایکسپریس پردہشت گردوں کاناکام حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب پاکستانی سیکیورٹی ادارے ہمہ وقت چوکس ہیں اوروہ کسی بھی حملے پرفوری رسپانس دیتے ہیں ۔جعفرایکسپر یس حملے میں 33 دہشت گردوں نے حصہ لیاجنہیں پاک فوج کے جوانوں نے جہنم واصل کیااورانکے قبضے سے چارسوکے قریب افرادکو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا ۔

سیکیورٹی فورسزکے پہنچنے سے قبل دہشت گردوں نے 21مسافروں کوشہیدکیاتھاسیکیورٹی فورسزکے جوانو ں نے جانیں ہتھیلی پررکھ کر شر پسند عناصر کامقابلہ کیا۔اس دوران 4جوانوں نے جام شہادت نوش کرکے مادروطن پرقربان ہوگئے ۔جعفر ایکسپر یس پر حملے کے واقعے سے واضح ہواکہ اب پاکستانی سیکیورٹی ادارے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں اور کوئی مذموم کارروائی ملک کے کسی دور دراز علاقے میں کیوں نہ ہو پاک فوج کے جوان ملک وقوم کی حفاظت کیلئے کوئیک رسپانس دیتے ہیں اورفوری پہنچتے ہیں ۔ڈی جی آئی ایس پی آرکے مطابق‘‘ جعفر ایکسپر یس میں440افرادسوارتھے،آپریشن میں ایس ایس جی اورائیرفورس پولیس نے حصہ لیا،پہلے مرحلے میں خود کش حملہ آوروں کونشانہ بنایا گیا ، معصوم جانوں کی حفاظت کیلئے آپریشن میں مہارت اوراحتیاط کامظاہرہ کیاگیا،دہشت گردوں میں خودکش بمبار بھی شامل تھے جنہوں نے خواتین اوربچوں کوبطورانسانی ڈھال استعمال کرنیکی مذموم کوشش کی ،دہشت گردوں نے یرغمال مسافروں کو ٹولیوں میں تقسیم کیاتھا،فوجی جوانوں نے آپریشن کے بعدبازیاب مسافروں کومحفوظ مقام پرمنتقل کیاجبکہ انکی مہارت سے ایک بھی خوکش حملہ آورکوپھٹنے کاموقع نہیں دیا گیا’’ ۔

جعفرایکسپریس پرحملے اوراسکے خلاف ہونے والے کامیاب آپریشن سے واضح ہواکہ پاک فوج کسی بھی جارحیت یابزدلانہ حملے کامنہ توڑجواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اوریہ پہلے بھی کئی مواقع پرثابت شدہ حقیقت ہے جس کا کسی اور کوہونہ ہو بھارت کوبخوبی اندازہ ہوچکاہے جب بھی اسکے جنگی جہازوں نے پاکستان کارخ کیاانہیں یاتوہوامیں ہی تباہ کردیاگیایاقیدی بنا کر زمین پر اتارلیاگیا۔پاک فوج کی جنگی مہارت اورجذبہء ایمانی کے سبب بھارت کھل کرپاکستان پرحملہ کرنیکی جرات نہیں کرسکتااسلئے وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کر کے اورانہیں اسلحہ وتربیت فراہم کرکے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کیلئے کوشاں ہے ۔

جعفرایکسپریس حملے کے دوران بھارتی میڈیاکے غلیظ کردارسے یہی ثابت ہواکہ حملے کی ناکامی سے انتہاپسندہندوؤں کے ہاں صف ماتم بچھ چکی ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان کے اندر عاقبت نااندیشوں کا ایک سیاسی گروہ بھی ملک دشمنوں اوردہشت گردوں کی زبان بول رہاہے ۔یہ سیاسی طبقہ ماضی میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کرچکاہے اوراسی کے سبب ان گنت بھگوڑے دہشت گردپاکستان میں آکرآبادہوئے جواب یہاں ہونے والے حملوں میں یاتو براہ راست حصہ لیتے ہیں یاپھرحملہ آوروں کی سہولت کاری کرتے ہیں ۔اس سیاسی گروہ اوردہشت گردوں میں زیادہ فرق نہیں کیونکہ دہشت گردبے گناہ ،معصوم اورپرامن شہریوں پرحملے کرتے ہیں جبکہ سیاست کالبادہ اوڑھے دہشت گردگروہ ان کی کامیابی کیلئے دعاگورہتا ہے ۔جعفرایکسپریس پرحملے کے دوران پی ٹی آئی سوشل میڈیا اکاؤ نٹس سے جس قسم کاموادشیئرکیاگیایاڈھکے چپے اورکھلے ڈھلے الفاظ میں دہشت گردحملوں کیلئے جوجوازپیش کئے گئے یہ قابل مذمت فعل ہے ۔

ریاست کو اپنے شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے سا تھ ساتھ سیاسی نقاب پوش دہشت گردوں کابھی قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ عمل کسی صورت قابل قبول نہیں کہ ملکی تنصیبات پردہشت گردحملے کریں ،پرامن اورمعصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے اورایک سیاسی دہشت گردگروہ اس دوران فوج کوتنقیدکانشانہ بنائے اوراس کامورال گرانے کی مذموم کوشش کرے ۔حکومت کوچاہئے کہ جعفر ایکسپریس حملے کے دوران پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤ نٹس سے فوج اورریاست کے خلاف جوزہراگلاگیا،فوج کوتنقید کا نشانہ بنایاگیایااس کامورال گرانے کی مذموم کوشش ہوئی انمیں ملوث تمام افراد کو چاہے یہ بیرون ملک مقیم ہوں یااندرون ملک ،ٹریس کرکے پیکایاجوبھی قانون موجودہواسکے تحت سخت سے سخت سزادی جائے ۔

جعفر ایکسپر یس حملے کوناکام بنانے اوردہشت گردوں کافوری اورمؤثر مقابلہ کرنے پرپاک فوج کے جوان خراج تحسین کے مستحق ہیں ملک وقوم کی حفا ظت اورسربلندی کی خاطرجانوں کے نذرانے پیش کرنے والے قومی ہیروہیں پوری قوم اپنے شہدااورغازیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ انکی قربانیوں کوخراج تحسین اور سلام پیش کرتی ہے اوردشمن کوپیغام ہے کہ پاکستان مندرکاکوئی گھنٹانہیں جسے کوئی بھی آکربجادے ۔ سانحہ جعفرایکسپریس سے ریاست، قوم اورفوج کے ارادے مزیدپختہ ہوئے ہیں۔انسانیت کے دشمن اورخونریزی کے دلدادہ خوارج اپنی مذموم کارروائیوں سے بازآجائیں ورنہ یہ مزیدذلتیں سمیٹیں گے انکی ذلت آمیز شکست اوررسوائی نوشتہء دیوارہے ۔